امریکی صدارتی انتخابات
27 اکتوبر 2008امریکی صدارتی مہم اس وقت اپنے بام اوج پر ہے۔ ڈیمو کریٹس اور ریپبلکنز، دونوں ہی اطراف سے ایک دوسرے پر سیاسی الزامات اور ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئے دعوں اور وعدوں کا بھرپور سہارا لیا جا رہا ہے۔ رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے نشریاتی اداروں پر بھرپور انتخابی مہم جاری ہے۔
امریکی ریپبلکن صدارتی امیداوار جان مک کین نے دعویٰ کیا ہے کہ انتخابات میں ان کی فتح یقینی ہے۔ دوسری جانب ڈیموکریٹ باراک اوباما کا کہنا ہے کہ بش اور مک کین کے سیاسی نظریات ایک ہی ہیں۔ امریکی ٹی وی چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے ریپبلکن صدارتی امیدوار جان مک کین نے کہاکہ چار نومبر کے انتخابات میں وہ فاتح ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی عوام خدشات کا شکار ہے اور ایسی نازک صورت حال میں عوام ایک بہتر مستقبل چاہتے ہیں، اس لئے آئندہ چند روز میں ریپبلکن بھرپورعوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے گی تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عراق جنگ پر مخالفت کی وجہ سے انہیں اپنی پارٹی کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسری جانب ریاست کولوراڈو میں ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار باراک اوباما نے انتخابی ریلی سے خطاب میں کہا کہ جان مکین صدربش کی ناکام معاشی پالیسیوں کو جاری رکھنا چاہتے ہیں جو امریکہ کے مستقبل کے لئے مہلک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بش اور مک کین کے سیاسی نظریات میں کوئی فرق نہیں اور آٹھ سالہ بش دور حکومت کی پالیسیوں نے امریکہ کو غلط راستے پر گامزن کردیا ہے۔
امریکا میں مختلف اداروں کی جانب سے جاری کردہ سروے رپورٹوں اور جائزوں میں ابھی تک باراک اوباما کو برتری حاصل ہے۔ مختلف جائزہ رپورٹوں میں یہ برتری زیادہ یا کم تو ہے مگر بہرحال ہے باراک اوباما کے حق میں ہی۔
جائزوں میں واضع طور پر امریکی صدارتی امیدوار باراک اوباما اپنے حریف مک کین سے پانچ پوائنٹس سے لے کر بارہ پوائنٹس تک کی برتری لئے ہوئے ہیں۔ امریکہ میں ان دنوں نشریاتی اور دوسرے مختلف ادارے روزانہ کی بنیاد پر سروے رپورٹیں اور جائزے نشر کر رہے ہیں۔