1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی راکٹ کی روانگی، روسی خلائی اجارہ داری کا خاتمہ؟

30 مئی 2020

امریکا انسان بردار خلائی مشن روانہ کر رہا ہے۔ اس اسپیس لانچ کی اہم بات یہ ہے کہ قریب ایک دہائی کے وقفے کے بعد امریکا سے انسان بردار خلائی مشن روانہ ہو رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3d11s
USA Cape Canaveral Startabbruch SpaceX Falcon 9 Rakete
تصویر: Reuters/J. Skipper

امریکا قریب ایک دہائی کے بعد پہلی مرتبہ اپنا انسان بردار خلائی مشن روانہ کر رہا ہے۔ پچھلی ایک دہائی سے وہ انسان بردار مشن خلا میں پہنچانے کے لیے روسی راکٹس کی خدمات حاصل کر رہا تھا، تاہم لگتا یوں ہے کہ امریکا اور روس کے درمیان یہ خلائی تعاون اب اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔

کسی خاتون کا خلا میں طویل ترین قیام: کرسٹینا کوخ اب زمین پر

قدیم زندگی کی کھوج: مريخ روور 2020 اس سال روانہ ہو گا

گزشتہ نو برس کے دوران بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک خلانورد پہنچانے کے لیے روس کے سویوز راکٹ استعمال کیے جا رہے تھے، مگر روس کی خلائی برتری کا یہ دور آج ہفتہ 30 مئی کے روز فیلکن نو امریکی راکٹ کی کامیاب روانگی کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا۔ فیلکون راکٹ ڈریگون اسپیس کیپسول کے ذریعے دو خلانوردوں کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن لے جا رہا ہے۔ اس مشن کو چند روز قبل روانہ ہونا تھا، تاہم موسم کی خراب صورت حال کی وجہ سے اس کی تاریخی روانگی ملتوی کر دی گئی تھی۔

امریکا کی سرکاری خلائی تحقیقی ایجنسی ناسا نے جولائی سن 2011 میں خلائی شٹل کی آخری پرواز کے بعد خود تو کوئی خلائی جہاز تیار نہیں کیا۔ اب بھی ناسا اپنے خلانوردوں کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچانے کے لیے نجی کمپنی اسپیس ایکس کی خدمات حاصل کر رہا ہے۔ اسپیس ایکس ٹیسلا کمپنی کے سربراہ ایلون مُسک کی کمپنی ہے۔

طیارہ ساز کمپنی بوئنگ بھی خلائی جہاز تیار کرنے میں دلچسپی ظاہر کر رہی ہے اور ممکنہ طور پر اگلے برس سے غیرانسان بردار اسٹارلائنر خلائی جہاز خدمات کے لیے پیش کر دے گی۔ تاہم یہ پیش رفت واضح کرتی ہے کہ امریکا ایک مرتبہ پھر آؤٹر اسپیس تک براہ راست رسائی والے ممالک کے کلب میں شامل ہونے جا رہا ہے۔ اس وقت فقط روس اور چین انسان بردار خلائی مشن خلا تک پہنچا رہے ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکا اور روس خلائی شعبے میں حریف نہیں ہیں اور خلا کے شعبے میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون دیکھا گیا ہے۔ اسپیس شٹل پروگرام کے خاتمے کے بعد امریکی خلانورد قازقستان کے خلائی اڈے سے روسی راکٹس کے ذریعے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچتے رہے ہیں۔ سن 2003 میں کولمبیا نامی خلائی شٹل کے حادثے کے بعد خلائی شعبے میں روس کی اجارہ داری رہی ہیں۔ کولمبیا خلائی شٹل کی تباہی میں اس پر سوار خلانوردوں کی ہلاکت کے بعد امریکا نے دو برس کے لیے خلائی پروازیں روک دی تھیں۔ اس وقت بھی روس 'خلائی ٹیکسی‘ کی خدمات پیش کر رہا تھا۔ گزشتہ نو برس میں تقریباﹰ 40 کامیاب خلائی مشنز روسی سویوز خلائی جہازوں کی مدد سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک گئے ہیں۔

چاند پر پانی کے کئی ذخائر موجود

تاہم سن 2018 کے موسم گرما میں ایک غیرمعمولی واقعہ پیش آیا تھا، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان خلائی تعاون کے مستقبل پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے تھے۔ ایک سویوز کیپسول بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچا، تو اس کے اندر دباؤ میں کمی ریکارڈ کی گئی، جس کی وجہ ایک سیل میں سوراخ تھا۔ روسی خلائی تحقیقی ادارے روس کوسموس نے اس معاملے کو سبوتاژ کی کوشش قرار دیتے ہوئے اس کی تفتیش کا حکم دیا تھا۔ روسی خلائی ادارے نے اس کا الزام امریکی خلانوردوں پر الزام کیا تھا۔ امریکی خلانوردوں نے تاہم ان الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔ ناسا نے بعد میں کہا تھا کہ وہ کوسموس کی اس تفتیش میں تعاون کرے گا۔

اکتوبر 2018 میں ایک اور واقعے میں سویوز راکٹ میں روانگی کے فوراﹰ بعد خرابی پیدا ہو گئی تھی اور ہنگامی پروٹوکول کے ذریعے اس میں سوار ایک روسی اور ایک امریکی خلانورد کی جان بچا لی گئی تھی۔ سویوز کیپسول کے ذریعے ایک وقت میں تین خلانوردوں کو بین الاقوامی خلائی مرکز تک پہنچایا جا سکتا ہے، جب کہ اس سلسلے میں روسی کمپنی 'ٹکٹ کی قیمت‘ میں خاصا اضافہ کر چکی ہے۔ ابتدا میں فی خلانورد یہ ٹکٹ 21 ملین ڈالر تھا، جب کہ حال ہی میں روس نے اس کے لیے 80 ملین ڈالر طلب کیے۔ اگلے برس موسم خزاں میں ایک سویوز کیپسول روانہ کیا جائے گا، جس کے لیے روس کو فی خلانورد 90 ملین ڈالر ادا کیے جائیں گے۔

رومان گونچارنکو، ع ت، ا ا