1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخشمالی امریکہ

امریکی تاریخ کی بنیادیں

11 جولائی 2021

وہ کون سا رویہ ہے جو امریکی سامراج کو امن عالم کے لیے خطرہ بناتا ہے؟ امریکی تاریخ کے بارے میں معروف تاریخ دان مبارک علی کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3wK4p
ڈاکٹر مبارک علیتصویر: privat

امریکا کی 13 کالونیز 1776ء میں برطانیہ سے آزاد ہوئیں۔ اس لحاظ سے اس سال سے ان کی تاریخ کی ابتداء ہوئی۔ ایشیا اور افریقہ کے ممالک جو یورپی سامراج سے آزاد ہوئے تھے، ان کی پہلے سے قدیم تاریخ اور تہذیب تھی۔ اس لیے انہوں نے اپنی آزادی کے بعد فراموش شدہ تاریخ اور تہذیب کو زندہ کر کے اس سے اپنا رشتہ جوڑا۔ تاریخ کے اس تسلسل میں انہوں نے سامراج کی تاریخ کو بھی اس کا ایک حصہ بنا دیا۔ امریکا میں اس کے برعکس آزاد ہونے والی 13 کالونیز کی نہ تو کوئی قدیم تاریخ تھی نہ تہذیب۔ مقامی باشندوں اور قبائل کو انہوں نے اپنی تاریخ سے نکال دیا تھا۔ یہی صورت افریقی غلاموں کی تھی جو ان کی تاریخ میں شامل نہیں تھے۔ اس لیے امریکیوں کے لیے یہ ایک بڑا مسئلہ تھا کہ اپنی تاریخ کو کیسے تشکیل دیں۔ اس نئی تاریخ کو بنانے میں امریکیوں کو فائدے بھی تھے اور مشکلات بھی۔

ان کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ ان پر ماضی کا بوجھ نہیں تھا۔ نہ ان کے ہاں بادشاہت تھی نہ امراء کا طبقہ اور نہ ہی بالادست طبقے کی مراعات۔ اس لیے انہوں نے ماضی کی روایات اور اداروں پر اپنی تاریخ اور تہذیب کی بنیاد رکھنے کے بجائے مستقبل کی جانب دیکھا اور اس کے لیے ترقی کی راہیں بنائیں۔

’ٹیلنگ دا ٹرتھ اباؤٹ ہسٹری‘ (Telling the truth about history) کے مصنف نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ امریکی معاشرے میں قوم پرستی کی بھی کوئی علامت نہیں تھی کیونکہ قوم پرستی میں سب سے زیادہ محبت اور لگاؤ زمین سے ہوتا ہے، لیکن امریکیوں کے پاس یہ زمین بھی ان کی نہیں تھی۔ کیونکہ انہوں نے ریڈ انڈینز کو بے دخل کرکے اس پر قبضہ کیا تھا۔ یہ ایک انسانی جرم تھا لیکن اس کو جائز قرار دینے کے لیے انہوں نے منطق کا سہارا لیتے ہوئے یہ دلیل دی کہ چونکہ مقامی باشندے اس زمین کا استعمال نہیں کر رہے تھے اور نہ ہی ان میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ زمین کو زرعی بنا کر پیداوار کر سکیں، اس لیے اہل یورپ کا یہ حق ہے کہ وہ زمین سے فائدہ اٹھائیں اور ترقی کریں۔ اس جواز کے باوجود زمین ان کے لیے معاشی طور پر فائدہ مند تو رہی مگر اس سے ان کا ذہنی لگاؤ نہیں ہو سکا۔ اگرچہ امریکا میں آنے والوں کی اکثریت برطانوی تھی۔ یعنی Anglo Sexon  جن کا تعلق پروٹسٹنٹ فرقے سے تھا، چونکہ ان کی جنگ برطانیہ سے ہوئی تھی اس لیے انہوں نے وقتی طور پر برطانیہ سے اپنے تہذیبی تعلقات توڑ لیے تھے۔ اس لیے یورپ سے آنے والے مہاجرین جن میں جرمن، ڈچ، اطالوی اور مشرقی یورپ سے تھے۔ یہ اپنے ساتھ اپنے ملکوں کی تاریخ اور تہذیب کو لے کر آئے۔ یہاں تک کہ اطالویوں نے اپنی دہشت گرد تنظیم مافیا کو بھی امریکا میں لاکر اسے بسا دیا۔ امریکا کی تاریخ کے ابتدائی دنوں میں یہاں بہت سے ایسے مذہبی فرقے آئے جن کے ساتھ یورپ میں تعصب بڑھتا جارہا تھا، لیکن امریکا میں آنے کے بعد ان فرقوں نے بھی اپنے ہاں تعصب کو قائم کیا۔ مثلاً میساچوسٹ میں آباد ہونے والا فرقہ جو 'پِلگرِم فادرز‘ کہلاتے تھے، نے'کوئیکرز‘  کو جو جنگ کا مخالف فرقہ تھا، برداشت نہ کیا اور کچھ کو تو زندہ بھی جلا دیا۔ یہودیوں کے لیے ان کے ہاں کوئی گنجائش نہیں تھی۔

چونکہ امریکی آبادی کی اکثریت مسیحیت کے پروٹسٹنٹ قبیلے سے تعلق رکھتی تھی اس لیے یہ کیتھولک فرقے کے سب مخالف تھے اور کیتھولک فرقے کے ماننے والوں کے ساتھ تعصب بڑھتا جاتا تھا۔ جب 1845ء میں آئے دن آلوؤوں کی وجہ سے قحط پڑا تو ہزاروں کی تعداد میں آئیرش کے ساتھ ذلت آمیز برتائو کیا گیا۔ ہندوستان سے مہاجرین جو کیلیفورنیا میں جا کر آباد ہوئے وہ نسلی تعاصب کا شکار ہوئے۔ ان میں سے اکثر نے کاشتکاری کی۔ ان کو نہ تو کسی بنک نے قرضہ دیا اور نہ ہی کسی سے امداد ملی۔ امریکی عورتوں نے ان سے شادی کرنے انکار کر دیا۔ اس لیے انہوں نے پھر میکسیکو کی عورتوں سے شادیاں کیں۔ اس نسلی تعصب کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ امریکا کے ماحول سے تنگ آگئے اور 1913ء انہوں نے غدر پارٹی بنائی، تاکہ ہندوستان واپس آکر اسے آزاد کرائیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی معاشرے میں نسل پرستی کی جڑیں کس قدر گہری ہیں۔

امریکا کے مقامی قبائل کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اس کو تاریخ میں پوری طرح سے محفوظ نہیں رکھا گیا ہے۔ کیونکہیورپ سے آنے والوں کے پاس فوجی طاقت تھی اس لیے انہوں نے ایک ایک کر کے تمام مقامی قبائل کا خاتمہ کیا۔ ان کی زمینوں پر قبضہ کیا اور انہیں کیمپوں میں محصور کر کے رکھ دیا۔ امریکی مورخ ٹرنر نے ’فرنٹیئر تھیسیز‘ میں بتایا ہے کہ کس طرح سے مقامی قبائل کو بے دخل کرتے ہوئے اور زمینوں پر قبضہ کرتے ہوئے یہ برابر مغرب کی جانب بڑھتے رہے۔ یہاں تک کے سارا علاقہ ان کے قبضے میں آگیا۔

امریکا کے بارے میں عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ طبقاتی معاشرے نہیں ہے اور یہاں مساوات ہے، لیکن یہ بھی دروغ گوئی پر مبنی ہے، کیونکہ امریکا کی ابتدائی تاریخ میں ایک بڑی تعداد میں غریبوں اور مفلسوں کو برطانیہ سے نکالا گیا اور انہیں جہازوں میں بھر کر بھیجا گیا کہ یہاں ان سے محنت و مزدوری کرائی جائے۔ اس کا   نینسی آئزنبرگ نے اپنی کتاب ’وائٹ ٹریش‘ میں تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔ جن غریب لوگوں کویہاں لایا جاتا تھا انہیں 'انڈنچرڈ لیبرر‘ یا مضحکہ خیز محنت کش بھی کہتے تھے۔ یعنی ان سے پانچ سال تک بے گار میں کام لیا جاتا تھا تاکہ ان کے لانے پر جو خرچ ہوا ہے اسے ادا کیا جا سکے۔ اگرچہ اس کے بعد وہ آزاد تو ہو جاتے تھے لیکن امریکی معاشرے میں ان کا مقام انتہائی کم تر تھا۔ جب افریقہ سے غلاموں کو امریکا لایا گیا تو ان کے نہ تو کوئی حقوق تھے اور نہ ہی ان کی اپنی کوئی حیثیت تھی۔ یہ اپنے آقا کی ملکیت تھے۔ جب امریکا کا نیا دستور بنا تو اس میں 'ڈکلیئریشن آف انڈیپنڈنس‘ کو بھی شامل کیا گیا۔ جس میں اعلان تو کیا گیا کہ تمام امریکی برابر ہیں مگر اس میں نہ تو امریکی غلام شامل تھے اور نہ ہی مقامی ریڈ انڈینز قبائل۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب ایشیائی ملکوں سے بھی مہاجرین آنا شروع ہوئے تو ان کے خلاف بھی تعصب کی ایک نئی لہر اُبھری۔ ان میں خاص طور  سے چینی اور جاپانی شامل تھے۔ امریکا کے حکمرانوں کا تصور یہ تھا کہ جو بھی یہاں پر آئے تو وہ اپنی قدیم کلچر کی شناخت کو فراموش کر کے خود کو امریکی معاشرے میں ضم کر دے۔ اسے’میلٹنگ پاٹ‘ کہا جاتا تھا، جبکہ اہم اور ضروری یہ تھا کہ نئے آنے والوں کی شناخت کو قائم رکھ کے ان کے تجربات سے فائدہ اُٹھایا جائے۔

18ویں صدی عیسوی میں امریکا میں دو اہم تبدیلیاں آئیں کیونکہ یہ وہ وقت تھا کہ نئی شاہراہوں کی تعمیر ہو رہی تھی اور ریلوے لائنوں کی ابتداء ہو چکی تھی جس نے دور دراز کے شہروں اور قصبوں کو آپس میں ملانا شروع کر دیا تھا۔ ایک لحاظ سے یہ امریکی قوم پرستی کی ابتداء تھی کہ بکھرے ہوئے لوگ ایک دوسرے سے واقف ہوئے۔ پھر اخباروں، رسالوں، پمفلٹوں اور کتابوں کے ذریعے لوگوں میں روابط بڑھے۔ آپس کی تجارت نے ان رشتوں کو اور مضبوط کیا۔

دوسری اہم تبدیلی یہ تھی کہ تھامس جیفرسن نے اپنی صدارت کے زمانے میں لوزیانہ کی ریاست کو فرانس سے خرید لیا۔ جس کی وجہ سے اسے زمین کا بڑا رقبہ مل گیا۔ پھر 1812ء میں امریکا کی سامراجی پالیسی شروع ہوئی۔ میکسیکو سے جنگ کے بعد کیلیفورنیا اور ٹیکساس پر قبضہ کر کے انہیں امریکا میں شامل کر لیا گیا۔ اس کے بعد سے امریکی سامراجی عزائم برابر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہوائی پر قبضہ کیا، الاسکا کا علاقہ روس سے خریدا اور پھر ان کے یہ سامراجی عزائم امریکا سے باہر نکل کر دوسرے ملکوں تک گئے۔ تھیوڈور روز ویلٹ کی صدارت میں فلپائن پر قبضہ کیا گیا۔ جب چین میں یورپی طاقتیں’اوپیئم وار‘ کے سلسلے میں لوٹ مار میں شامل تھیں تو امریکا بھی ان میں شریک تھا۔ پہلی اور دوسری جنگوں کے بعد امریکا کی سامراجی پالیسی بے نقاب ہو کر سامنے آئی۔ ویتنام میں اس نے بے تحاشہ بمباری کرکے اسے تباہ کیا۔ ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا میں جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر وہاں آمریتوں کی سرپرستی کی۔

اگرچہ امریکا خود کو جمہوریت کا چیمپئن کہتا ہے، مگر اس کی اپنی جمہوریت کا ر پوریٹ اداروں کی اسیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں افریقی باشندے جو اگرچہ غلامی سے آزاد ہیں مگر سرمایہ دارانہ زنجیروں میں قید ہیں۔ اس جمہوریت میں نہ تو امریکی ریاست عوام کی تعلیم، صحت اور روزگار کی ذمہ دار ہے اور نہ ہی ان کے تحفظ کی۔ اسلحے کی آزادانہ فروخت کی وجہ سے معاشرے میں تشدد اور دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں جن پر ریاست کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔

لیکن امریکی مؤرخ اور خاص طور سے نصاب کی کتابیں لکھنے والے امریکی تہذیب کو شاندار بنا کر پیش کرتے ہیں اور ان واقعات کو نظرانداز کر دیتے ہیں جن کا تعلق نسل پرستی اور تعصب سے ہے۔ وہ اپنے 'فاؤنڈگ فاردز‘ کو ہیروز بنا کر پیش کرتے ہیں، جبکہ یہ وہ افراد تھے جو غلام رکھتے تھے اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے۔ ان حکمران طبقوں نے آزادی کے بعد اپنے معاشی مفادات کو پورا کیا۔ اس کے بارے میں ایک امریکی مؤرخ چارلس بیئرڈ نے اپنی تحریروں میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔

اس لیے سوال یہ ہوتا ہے کہ امریکا کے حکمران طبقے جن کے پاس مالی وسائل، فوجی و نیوکلیئر طاقت اور علم کے حصول کے لیے معیاری جامعیات موجود ہیں، کیا یہ ان مراعات کو اپنے حد تک محدود رکھ کے دنیا کو امن کے ساتھ رہنے دے گا یا جنگوں اور تصادم کے ذریعے اپنے مفادات کو پورا کرتا رہے گا؟ اس کے دانشور امریکی ریاست کو سپرپاور بنا کر اسے عالمی تسلط دلانا چاہتے ہیں اور یہ بات بار بار کہی جاتی ہے کہ روس کے بعد اب اس کو چیلنج کرنے والی کوئی طاقت نہیں ہے۔ اس لیے وہ آزاد ہے کہ جہاں چاہے جنگ کرے اور جہاں چاہے اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرے۔ یہی وہ رویہ ہے جو امریکی سامراج کو امن عالم کے لیے خطرہ بناتا ہے۔