1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا کی بات چیت شروع کرنے کے لیے ایران سے درخواست

8 جنوری 2019

ایک اعلیٰ ایرانی حکومتی اہلکار نے بتایا ہے کہ امریکا نے ایران کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کی درخواست کی ہے۔ ایرانی اہلکار نے یہ واضح نہیں کیا کہ امریکا کے کس سطح کے اہلکار نے ایران سے مذاکرات کی پیشکش آگے بڑھائی ہے۔

https://p.dw.com/p/3BAk3
Iranischer Rial und US Dollar
تصویر: imago/Christian Ohde

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے ایک انتہائی اہم مشیر علی شام خانی نے کہا ہے کہ امریکا نے ایران کے ساتھ بات چیت کے لیے رابطہ کیا تھا۔ شام خانی نے مزید واضح کیا کہ یہ رابطہ اُن کے ساتھ اُن کے افغانستان کے دورے کے دوران ہوا، جو گزشتہ برس دسمبر میں کیا گیا۔ انہوں نے اپنے اس بیان میں یہ واضح نہیں کیا کہ کس امریکی اہلکار نے امریکا اور ایران کے درمیان بات چیت شروع کرنے کی درخواست کی تھی۔

علی شام خانی ایرانی سپریم لیڈر کے قریبی مشیر ہونے کے علاوہ اُن کی تشکیل کی گئی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری بھی ہیں۔ انہوں نے نیوز ایجنسی تسنیم کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کابل میں قیام کے دوران بات چیت شروع کرنے کی امریکی درخواست موصول ہوئی تھی۔ علی شام خانی کا یہ بیان ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی تسنیم نے رپورٹ کیا ہے۔

دوسری جانب امریکی وزارت خارجہ کی ایک خاتون ترجمان نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ یہ رپورٹ مصدقہ قرار نہیں دی جا سکتی۔ اس خاتون ترجمان نے یہ ضرور واضح کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ساتھ قومی اور سکیورٹی معاملات پر مذاکرات شروع کرنے کے لیے کھلی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔

Iran Protest gegen US-Sanktionen in Teheran
ایرانی عوام میں امریکا مخالف جذبات میں شدت پاسی جاتی ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare

یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس مئی سے امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی و تناؤ اُس وقت بڑھ گیا تھا، جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2015 کی جوہری ڈیل سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ اس علیحدگی کے بعد امریکا ایران پر کئی اقتصادی پابندیوں کا نفاذ کر چکا ہے۔ امریکا ان پابندیوں کے نفاذ کے بعد اس کوشش میں ہے کہ ایران کی خام تیل کی بین الاقوامی فروخت کو انتہائی محدود کر دیا جائے۔

یہ امر اہم ہے کہ امریکا کی جانب سے ایران پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ خلیج فارس کے خطے کے عرب ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے یمنی حوثی ملیشیا کو ہر طرح کی امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسی طرح واشنگٹن کا خیال ہے کہ امریکا عراقی شیعہ عسکری گروپوں کی حمایت کرنے کے علاوہ شام میں اسد حکومت کا حلیف ہے اور اس عمل سے وہ ایک طرف لبنان کی شیعہ انتہا پسند تنظیم حزب اللہ کو فعال کیے ہوئے ہے تو دوسری جانب اسرائیل مخالف پالیسی بھی اپنائے ہوئے ہے۔