1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا: پولیس افسر کی گولی سے سیاہ فام کی موت کے بعد مظاہرے

14 جنوری 2022

ایک امریکی پولیس افسر کی گولی سے ایک غیر مسلح سیاہ فام کی موت کے بعد شمالی کیرولائینا کے فائٹے ویلے میں عوام کافی ناراض ہیں۔ مذکورہ افسر نے جب گولی ماری اس وقت وہ ڈیوٹی پر نہیں تھے۔ متاثرہ کنبے نے مظاہروں کی اپیل کی ہے۔

https://p.dw.com/p/45WG8
Symbolfoto Antidiskriminierungsgesetz I Antidiskriminierung I Antirassismus
تصویر: Christoph Soeder/dpa/picture alliance

افریقی امریکی سیاہ فام غیر مسلح جیسن واکر کی  پولیس افسر جیفری ہیش کی گولی سے موت کے بعد اس ہفتے فائٹے ویلے میں مقامی لوگوں نے کئی چھوٹے مظاہرے کیے جبکہ انسانی حقوق کے معروف وکیل بنجامن کرمپ اور متوفی کے خاندان نے شہر میں آج "انصاف ریلی" کا اعلان کیا ہے۔

 پولیس کے ہاتھوں ایک اور سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد امریکا میں بالخصوص اقلیتوں کے خلاف پولیس کی مبینہ زیادتیوں پر ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے۔ جیفری ہیش سن 2005 سے پولیس میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لیکن ہفتے کے روز سیاہ فام جیسن واکر جس وقت ان کی گولی کانشانہ بنے اس وقت ہیش اپنی ڈیوٹی پر نہیں تھے۔

جیفری ہیش اپنی گاڑی میں اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ جا رہے تھے کہ 37 سالہ غیر مسلح سیاہ فام واکر ان کے والدین کے گھر کے قریب کی سڑک پار کرنے لگا۔ ہیش نے چند ہی لمحے بعد واکر پر گولی چلادی اور جائے واقعہ پر ہی ان کی موت ہو گئی۔

George Floyd | Streetart
تصویر: Christoph Hardt/Geisler-Fotopress/picture alliance

واقعہ متنازع

تاہم اس پورے واقعے پر ایک تنازع بھی پیدا ہوگیا ہے۔

ایک راہگیر نے فائرنگ کے فوراً بعد اس واقعے کی ویڈیو بنالی تھی اور اسے آن لائن پوسٹ کردیا، جس میں پولیس افسر اپنے ساتھیوں کو یہ بتاتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں کہ واکر سڑک کے بیچوں بیچ کود پڑے تھے۔ جس کے بعد انہوں نے واکر کو ہٹ جانے کے لیے کہا۔

ہیش کے مطابق واکر نے خود کو گاڑی پر گرا دیا، اس کی ونڈ شیلڈ کا ایک وائپر توڑ دیا اور اس سے ونڈ شیلڈ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ جس کی وجہ سے ہیش کو اپنی بیوی اور بیٹی کو بچانے کے خاطر ہتھیار نکالنا پڑا۔

دوسری طرف عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہیش نے گاڑی روکنے سے قبل واکر کو ٹکر ماری تھی۔

ایلزابیتھ رکس نامی ایک عینی شاہد کا کہنا تھا، "میں نے ہیش کو جیسن واکر کو ٹکر مارتے دیکھا...جس کے بعد ان کا جسم ونڈ شیلڈ سے ٹکرا گیا۔"

رکس کا مزید کہنا تھا کہ اس کے بعد انہوں کے گولیوں کی آوازیں سنیں۔ "میرے خیال میں انہوں نے پہلی گولی ونڈ شیلڈ کے ذریعہ ماری اور پھر تین مزید گولیا ں گاڑی سے باہر نکل کر چلائیں۔"

پولیس کے مطابق ہیش کے سیاہ رنگ کے پک اپ ٹرک پر ٹکر کا کوئی نمایاں نشان نہیں ہے جب کہ واکر کے جسم پر گولیوں کے زخم کے علاوہ کسی اور طرح کے نشانات نہیں ہیں۔

مذکورہ پولیس افسر کو چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے لیکن ان پر کوئی الزام نہیں لگایا گیا ہے اور نہ ہی گرفتار کیا گیا ہے۔ تفتیش کاروں نے قتل کے واقعے کی انکوائری شروع کر دی ہے۔

اس دوران ایک مقامی عدالت نے نارتھ کیرولائینا کے پولیس سربراہ کی اس درخواست کو منظور کرلیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فائرنگ کے اس واقعے کی باڈی کیمرا ویڈیو ریکارڈ کو جاری کرنے کی اجازت دی جائے۔

Weltspiegel 09.03.2021 | USA | George-Floyd-Demo in NEw York
تصویر: Shannon Stapleton/REUTERS

انسانی حقوق کی خلاف ورزی

انسانی حقوق کے وکیل بنجامن کرمپ نے کہا کہ متاثرہ کا خاندان اور فائٹے ویلے کی وسیع تر برادری اس سوال کے جواب کا مطالبہ کررہی ہے آخر واکر کو ایک پولیس افسر نے "اتنی بے رحمی سے گولی مار کر کیوں ہلاک کردیا"جبکہ وہ ڈیوٹی پر بھی نہیں تھے۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا،"ہمارے پاس اس بات پر یقین کرنے کے خاطرخواہ اسباب موجود ہیں کہ یہ 'پہلے گولی مارو پھر پوچھو' کا کیس ہے۔

بنجامن کرمپ نے ہی جارج فلائیڈ کیس میں ان کے کنبے کی عدالت میں نمائندگی کی تھی۔اب وہ واکر کا کیس بھی لڑیں گے۔ واکر ایک 14سالہ بیٹے کے باپ تھے۔

کرمپ کا کہنا تھا، "امریکا میں سیاہ فام بچوں کے بغیر باپ کے پرورش و پرداخت کے بہت سارے اسباب ہیں۔ لیکن یہ (گولی مارنے کا) سبب قابل قبول نہیں۔ یہ ناقابل قبول ہے کہ ہم ان نوعمر بچوں کو یہ بتائیں کہ ان کے والد کو بلا ضرورت، غیر منصفانہ اور غیر آئینی طورپر کسی ایسے شخص نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جس پر ان کی حفاظت اور خدمت کرنے کی ذمہ داری تھی۔"

امریکی پولیس افسران کے ہاتھوں امریکا میں ہر سال اوسطاً ایک ہزار افراد مارے جاتے ہیں۔ ان میں اکثریت سیاہ فاموں کی ہوتی ہے۔

ایسے معاملات میں پولیس کو شاذ و نادر ہی سزا ہوتی ہے۔ حالانکہ سن 2020میں جارج فلائیڈ کیس کے بعد بڑے پیمانے پر نسل پرستی مخالف مظاہروں کے بعد عدالتوں میں کچھ تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں۔ اور بعض کیسز میں خطا کار پولیس اہلکاروں کوسزا بھی ملی ہے۔

 ج ا/ ص ز (اے ایف پی، اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں