امریکا کی تحفظ ماحول کے عالمی معاہدے سے علیحدگی شروع
5 نومبر 2019اس ضمن میں پیر کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اقوام متحدہ میں ایک باقاعدہ نوٹس جمع کرا دیا۔ انخلا کی کارروائی میں ایک سال لگے گا اور یہ عمل امریکا میں اگلے برس صدارتی الیکشن کے ایک دن بعد یعنی چار نومبر کو مکمل ہوگا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی گزشتہ صدارتی مہم کے دوران پیرس میں طے پانے والے اس سمجھوتے کی مخالفت کی تھی اور اسے امریکی معیشت کے لیے نقصان دہ قرار دیا تھا۔
دو ہزار پندرہ میں طے پانے والے پیرس معاہدے میں صنعتی آلودگی کے ذمہ دار ممالک نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کا عہد کیا تھا۔ یہ معاہدہ برسوں کی مسلسل محنت اور طاقتور ممالک کے درمیان پیچیدہ مذاکرات کے بعد طے پایا تھا۔ امریکا نے اس وقت کے صدر باراک اوباما کی قیادت میں اس عالمی سمجھوتے پر دستخط کیے تھے۔
لیکن امریکا کی با اثر صنعتی لابی ماحولیاتی تحفظ سے متعلق ان کوششوں کی مخالف رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کا اس لابی سے وعدہ تھا کہ اگر وہ صدر بن گئے، تو امریکا کو اس معاہدے سے نکال لیں گے۔
اس فیصلے پر عمل کر کے اب امریکا اس عالمی معاہدے سے الگ ہونے والا دنیا کا پہلا ملک بن جائے گا۔
یورپی تجزیہ نگاروں کے نزدیک ایسے میں ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات میں دیگر ممالک خصوصاﹰ چین کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔
دوسری طرف امریکا میں تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والے سائنسدانوں، تنظیموں اور سول سوسائٹی کو امید ہے کہ صدر ٹرمپ اگلے الیکشن میں بطور امیدوار ناکام ہو جائیں گے۔ امریکا میں ریپبلکن صدر ٹرمپ کے مد مقابل ڈیموکریٹک پارٹی کے سبھی ممکنہ امیدوار پیرس معاہدے کے حامی ہیں۔
تحفظ ماحول کے کارکنوں کو امید ہے کہ وائٹ ہاؤس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے کسی صدر کے آ جانے سے صدر ٹرمپ کی یہ خواہش پوری نہیں ہو گی اور امریکا بدستور پیرس معاہدے کا حصہ رہے گا۔