1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا میں جرمن طلبا مدد کے طلب گار

12 جولائی 2020

امریکا میں زير تعليم جرمن طلبا نے میرکل حکومت کو ایک کھلے خط میں لکھا ہے کہ وہ مدد کے طلب گار ہیں۔ امریکی حکومت نے تمام غير ملکی طلبا سے کہا ہے کہ اگر ان کی کلاسیں آن لائن ہوتی ہیں، تو وہ اپنے اپنے ممالک لوٹ جائیں۔

https://p.dw.com/p/3fC3B
USA Campus der Harvard University in Cambridge, Massachusetts
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Senne

امریکا میں زیر تعلیم جرمن طالب علموں نے برلن حکومت سے درخواست کی ہے کہ نئے امریکی ویزا ضوابط کے خلاف ایک مضبوط موقف اپنايا جائے تاکہ وہ امریکا میں رہتے ہوئے اپنی تعلیم مکمل کر سکیں۔ اس خط میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں موسم خزاں کے سیمسٹر کے شروع ہونے سے قبل انہیں امریکی حکام ڈی پورٹ کر سکتے ہیں۔

اس کھلے خط پر قریب ایک سو ایسے طلبا نے دستخط کیے ہیں جو امريکا ميں تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا تعلیمی سلسلہ تقريباً مکمل کر چکے ہیں۔ یہ خط جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کے نام تحریر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ امریکا میں جرمن سفیر ایملی ہابر کو بھی بھیجا گیا ہے۔

جرمن طلبا اپنے خط میں تحریر کرتے ہیں کہ وہ جرمن حکومت کی مدد کے منتظر ہیں۔ ان طلبا نے امریکا کے نئے ویزا ضوابط کو 'اجانب دشمنی اور غیر ملکیوں سے نفرت‘ کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔ اِنہوں نے برلن حکومت سے کہا ہے کہ ان کا بھرپور اور مضبوط موقف یورپی اور بین الاقوامی طلبا کے لیے فائدہ مند ہو گا۔

اس خط کے جواب میں جرمن وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ویزا ضوابط میں تبدیلی ہر ملک کے داخلی اختیار سے منسلک ہے اور مخصوص حالات مثلاً حالیہ وبا کے دنوں میں مناسب اقدامات تجویز کرنا بھی ہر ملک کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

امریکا میں نئے ویزا ضابطے امیگریشن اور کسٹم ادارے نے جاری کیے ہیں۔ ان کے مطابق جن طلبا کی کلاسیں حالیہ ایام میں آن لائن ہو رہی ہیں وہ امریکا سے واپس اپنے ممالک میں جا کر ان کو جاری رکھیں۔ امریکی محکمے نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر فال سیمسٹر میں بھی طلبا کی کلاسیں آن لائن جاری رہتی ہیں تو پھر انہیں واپس لوٹنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ان طلبا کو یہ رعایت دی گئی ہے کہ وہ امریکا میں اس صورت میں مقیم رہ سکتے ہیں اگر وہ خود کو اُن تعلیمی اداروں میں منتقل کر لیں جہاں باقاعدہ کلاسوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے۔

Frankreich Vorlesungssaal in der Paul Verlaine Universität in Metz
تصویر: Imago Images/Danita Delimont/D. R. Frazier

جرمن حکومت کو روانہ کیے گئے خط پر دستخط کرنے والوں ميں ایک طالب علم ماکس میلین کلائین بھی شامل ہیں، جو ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں۔ کلائین کا کہنا ہے کہ نئے ویزا ضوابط میں امریکی تعلیمی اداروں کو پابند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کورونا وائرس وبا کی وجہ سے پیدا ہیلتھ رسک کو نظر انداز کرتے ہوئے طلبا کی کلاسوں میں موجودگی یقینی بناتے ہوئے تدریس کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ جرمن طالب علم کا مزید کہنا ہے کہ امریکی ویزا ضابطے کو حقیقت میں علم کی منتقلی اور بین الاقوامی تعلیم و تدریس کے تبادلے پر ایک بڑا حملہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

اندازوں کے مطابق امریکا میں دس لاکھ کے قریب غير ملکی طلبا زیرِ تعلیم ہیں۔ ان میں نو ہزار ایک سو کا تعلق جرمنی سے ہے۔ امریکی یونیورسٹیاں اس وقت ٹرمپ انتظامیہ کہ فیصلے کے خلاف مزاحمت کر رہی ہیں۔ جان ہوپکنز یونیورسٹی نے اس فیصلے کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ ہارورڈ یونیورسٹی اور میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے بھی ان ضوابط کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔

ربیکا اشٹاؤڈمائر (ع ح، ع س)