1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا: سیاہ فام شخص کو سزائے موت دے دی گئی

25 ستمبر 2020

امریکا میں ایک سیاہ فام مجرم کو مہلک انجیکشن دے کر موت کی سزا دے دی گئی۔ جولائی میں وفاقی سزائے موت بحال کیے جانے کے بعد سے یہ کسی سیاہ فام کی پہلی اور مجموعی طور پر ساتویں سزائے موت ہے۔

https://p.dw.com/p/3iydC
USA Todesstrafe
تصویر: picture-alliance/AP Photo

ٹرمپ انتظامیہ نے 17 برس بعد گزشتہ جولائی میں وفاقی سطح پرسزائے موت بحال کردی تھی۔  سزائے موت کی بحالی کے بعد کرسٹوفر ویالوا کی سزائے موت پر عمل درآمد امریکی حکومت کی طرف سے کسی سیاہ فام شخص کی پہلی سزائے موت ہے۔  انہیں دو عشرے قبل ایک نوجوان مسیحی جوڑے کے قتل کا قصوروار قرار دیا گیا تھا۔  وکلاء نے تاہم اس فیصلے پر نسلی جانبداری کا الزام لگا یا ہے۔

40سالہ ویالوا کو جمعرات کے روز مقامی وقت کے مطابق صبح 6 بجکر 42 منٹ پر انڈیانا کے ٹیرے ہوٹے وفاقی جیل میں مہلک انجیکشن دے کر موت کی نیند سلادیا گیا۔

سیاہ فام کرسٹوفر ویالوا کی سزائے موت کا واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب امریکا جرائم کے متعلق اپنے نظام انصاف میں پائی جانے والی نسلی بھید بھاو کے مسئلے سے دوچار ہے۔ بڑی تعداد میں عوام پولیس کی زیادتیوں اور نسل پرستی کے خلاف بطور احتجاج سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ جن 56 افراد کو اب تک وفاقی سطح پر موت کی سزا دی گئی ہے ان میں 24 یا تقریباً نصف سیاہ فام تھے۔

خیال رہے کہ امریکا میں سیاہ فاموں کی آبادی کا تناسب 13 فیصد ہے۔

’سنگین غلطی‘

ویالوا کے خلاف قتل کے مقدمے کا آغاز2000 میں ہوا تھا۔  گیارہ سفید فام اور ایک سیاہ فام جج پر مشتمل بنچ نے اسے اور اس کے ایک ساتھی کو کار چرانے اور قتل کا قصوروار پایا۔ بنچ نے دونوں کو سزائے موت سنائی تھی۔

ویالوا کے ساتھی کی سزائے موت پر فی الحال عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔

استغاثہ کا کہنا تھا کہ ویالوا، جس کی عمر اس وقت 19برس تھی، ایک جرائم پیشہ گروہ سے وابستہ تھا۔ اس نے ٹکسس کے کلین میں ایک کار چرائی، اسٹیسی اور ٹاڈ بیگلی کو گولی مار دی اور کار کو آگ لگادی۔  کار میں موجود بیگلی آخری وقت تک اپنی جان بچانے کے لیے منت سماجت کرتی رہی۔

ویالوا کے وکلاء کی طرف سے جمعرات کے روز جاری ایک ویڈیو ریکارڈنگ میں ویالوا نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے اس جوڑے کو قتل کر کے ”سنگین غلطی" کی تھی جو اتوار کے روز چرچ سے عبادت کرکے اپنے گھر واپس لوٹ رہا تھا۔

وکیل دفاع سوزان اوٹو کا کہنا تھا کہ ویالوا نے جن لوگوں کو اپنا شکار بنایا وہ بہت اچھے لوگ تھے۔  انہوں نے تاہم کہا کہ ویالوا جرائم پیشہ گروہ کا کل وقتی رکن نہیں تھا اور عدالت اس بیانیہ سے متاثر ہوگئی کہ وہ ایک خطرناک سیاہ فام ٹھگ تھا۔  اوٹو کا کہنا تھا”اس کیس میں نسل ایک بہت مضبوط عنصر ثابت ہوا۔"

جانبدارانہ رویہ

واشنگٹن میں واقع سزائے موت کے انفارمیشن سینٹر (ڈی پی آئی سی) نے اس ماہ کے اوائل میں اپنی ایک رپورٹ میں اعتراف کیا تھا کہ امریکی سزائے موت کے نظام میں نسلی جانبداری موجود ہے۔  انفارمیشن سینٹر کی اطلاعات کے مطابق ملک میں سیاہ فام افراد کی آبادی  صرف ساڑھے 13 فیصد ہے لیکن موت کی سزا پانے والوں میں ان کی شرح 34 فیصد ہے جبکہ ابھی جو سزائے موت پر عمل درآمد کے منتظر ہیں ان کی تعداد 42 فیصد ہے۔

ڈی پی آئی سی کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے تحت وفاقی محکمہ انصاف نے 1963 کے بعد سے اب تک ان کے پیش رووں کی انتظامیہ کے مقابلے میں تقریباً دو گنا لوگوں کو موت کی سزا دی ہے۔

ج ا/ص ز (روئٹرز، اے پی)

پولیس تشدد کے خلاف غم وغصہ اب پوری دنیا میں پھیلتا ہوا

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں