1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا: ایشیائی طلبہ سفید فاموں سے آگے

امجد علی6 مئی 2014

امریکا میں جاری کیے جانے والے ایک مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ امریکی اسکولوں میں ایشیائی نژاد امریکی طلبہ کی کارکردگی اُن کے سفید فام ساتھیوں کے مقابلے میں کہیں بہتر رہتی ہے کیونکہ وہ محنت زیادہ کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BuWW
تصویر: Getty Images

پانچ مئی پیر کو جاری کیا جانے والا یہ مطالعاتی جائزہ دو علیحدہ علیحدہ مرتب کردہ اُن جائزوں کے تجزیے پر مبنی ہے، جن کی تیاری کے دوران امریکا بھر میں کنڈرگارٹن سے لے کر ہائی اسکول کی سطح تک کے کئی ہزار سفید فام اور ایشیائی طلبہ کی کارکردگی کو جانچا گیا۔

نیویارک کے کوئینز کالج، یونیورسٹی آف مشیگن اور بیجنگ کی پیکنگ یونیورسٹی نے اپنے جائزے مرتب کرتے وقت اسکول کے درجوں کے ساتھ ساتھ امتحانوں میں حاصل کردہ نمبر، اساتذہ کی تیار کردہ درجہ بندی، والدین کی آمدنی اور تعلیمی معیار، امیگریشن سٹیٹس اور دیگر عوامل کو بھی پیشِ نظر رکھا۔

’پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘ میں شائع ہونے والے اس جائزے میں کہا گیا ہے:’’ایشیائی امریکی جب اسکول میں داخل ہوتے ہیں تو اُنہیں سفید فام ساتھیوں پر تعلیمی اعتبار سے کوئی نمایاں پیشگی برتری حاصل نہیں ہوتی بلکہ یہ برتری وقت کے ساتھ ساتھ آتی ہے۔‘‘

اس جائزے کے مطابق ایشیائی امریکی طلبہ اپنے سفید فام ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ محنت سے پڑھتے ہیں
اس جائزے کے مطابق ایشیائی امریکی طلبہ اپنے سفید فام ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ محنت سے پڑھتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

جائزے میں کہا گیا ہے کہ پانچویں کلاس تک یعنی دس گیارہ سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے ایشیائی امریکی ’بڑی حد تک سفید فام ساتھیوں پر سبقت‘ حاصل کر جاتے ہیں جبکہ اُن کی یہ سبقت دَسویں کلاس یا پندرہ سولہ برس کی عمر کو پہنچتے پہنچتے اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے:’’مجموعی طور پر یہ نتائج واضح کرتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی یہ کامیابی تعلیمی کاوشوں کی مرہونِ منت ہوتی ہے، نہ کہ ذہنی استعداد میں پائے جانے والے فرق کی۔‘‘

محققین کا کہنا ہے کہ ایشیائی امریکی بچوں کو اپنی اُن ثقافتی تعلیمات سے تحریک ملتی ہے، جن میں اُن کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کر دی جاتی ہے کہ کوشش اور محنت پیدائشی استعداد کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم ہوا کرتی ہے:’’ایشیائی امریکی بچے اپنے سفید فام ساتھیوں کے مقابلے میں اپنے والدین کے اس دباؤ کو بھی زیادہ برداشت کرنے والے ہوتے ہیں، جو کہ زیادہ سے زیادہ کامیاب ہونے کے لیے اُن پر ڈالا جاتا ہے۔‘‘

ان ماہرین کے مطابق عام طور پر پایا جانے والا یہ تصور گھسا پٹا ہی کیوں نہ ہو کہ سخت محنت کرنے والے ایشیائی طالبعلم بہر صورت کامیاب ہوتے ہیں لیکن بالآخر اس تصور کا ایشیائی امریکی نوجوانوں کو فائدہ ہی ہوتا ہے۔

دوسری جانب ان ایشیائی امریکی طلبہ کو، خواہ اُن کی جڑیں فلپائن میں ہوں یا جنوبی ایشیا میں، جنوب مشرقی ایشیا میں یا پھر مشرقی ایشیا میں، اُنہیں اپنی کامیابی کے لیے بہرحال ایک بڑی قیمت بھی چکانا پڑتی ہے۔ جائزے کے مطابق ان طالبعلموں کے خود اپنے بارے میں مثبت احساسات کم ہی ہوتے ہیں اور وہ اپنے سفید فام ساتھیوں کے مقابلے میں اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں کم وقت گزارتے ہیں:’’ان ایشیائی امریکی طلبہ کے اپنے والدین کے ساتھ تنازعات بھی اُن کے سفید فام ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں۔‘‘