1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’القاعدہ برصغیر‘ نامی تنظیم کے دو مرکزی رہنما ہلاک

امتیاز احمد12 اپریل 2015

رواں برس کے آغاز پر پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں القاعدہ برصغیر کے دو اہم اور مرکزی رہنما مارے گئے تھے۔ اپنے قیام کے چند ہی ماہ بعد اس پیش رفت کو القاعدہ برصغیر کے لیے سب سے بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1F6gi
MQ-9 Reaper Drohne Drohnenkrieg Ziel Drohnenangriff Afghanistan
تصویر: picture-alliance/AP/Air Force/L. Pratt

القاعدہ برصغیر کے ایک ترجمان اسامہ محمود نے ایک آڈیو بیان جاری کرتے ہوئے ان ہلاکتوں کی تصدیق کر دی ہے۔ اس کے مطابق ہلاک ہونے والا احمد فاروق القاعدہ برصغیر کا نائب امیر تھا جب کہ قاری عمران اس گروپ میں افغان امور کا انچارج تھا۔ ترجمان کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ پانچ جنوری کو شمالی وزیرستان میں ہونے والے ایک حملے میں پہلے قاری عمران ہلاک ہوا جب کہ بعد ازاں کیے جانے والے ایک دوسرے حملے میں احمد فاروق مارا گیا۔

ترجمان کے مطابق القاعدہ برصغیر کے نائب امیر احمد فاروق کا اصل نام راجہ سلیمان تھا اور اس نے اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے گریجویشن کی تھی۔ اسی طرح قاری عمران کا اصل نام ہدایت اللہ بتایا گیا ہے جب کہ اس جہادی گروپ میں افغان امور کے اس انچارج کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر ملتان سے بتایا گیا ہے۔

جاری ہونے والے ویڈیو پیغام میں پاکستانی فوج کی طرف سے شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسامہ محمود کا کہنا تھا، ’’یہ آپریشن امریکی قیادت اور افواج کی براہ راست نگرانی میں کیا جا رہا ہے۔ ڈرون اور جیٹ طیاروں کے ذریعے براہ راست مدد کی جا رہی ہے۔‘‘

القاعدہ برصغیر کے اس ترجمان کا مزید کہنا تھا، ’’اصل میں پاکستانی فوج امریکیوں کو صرف اور صرف خفیہ معلومات فراہم کر رہی ہے کہ کن مقامات کو نشانہ بنانا ہے۔‘‘ ترجمان نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ امریکی حملوں میں تنظیم کے تقریباﹰ پچاس اراکین مارے گئے ہیں۔

پاکستانی حکام کی طرف سے اسامہ محمود کے اس دعوے پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

گزشتہ برس ستمبر میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے القاعدہ برصغیر کے نام سے ایک نئی شاخ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن عراق اور شام میں شدت پسند گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی وجہ سے بین الاقوامی میڈیا پر یہ جہادی تنظیم پس پردہ جا چکی ہے۔

تجزیہ کاروں کی طرف سے القاعدہ برصغیر کے قیام کے وقت کہا گیا تھا القاعدہ شام اور عراق میں متحرک ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی تیزی سے بڑھتی مقبولیت سے خائف ہے اور چاہتی ہے کہ وہ بھی اپنی عسکری کارروائیوں کا دائرہ وسیع کر کے جنوبی ایشیاء میں موجود عسکریت پسندوں کو اپنی جانب راغب کرے۔