1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ کے تعلیمی اہداف، صرف ایک تہائی ممالک کامیاب

عاطف بلوچ9 اپریل 2015

اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران ایک تہائی ممالک لازمی بنیادی تعلیم کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں جبکہ پاکستان سمیت زیادہ تر ممالک پندرہ برس قبل بنائے گئے ان اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1F5Dm
تصویر: AP

سن2000 میں 164 ممالک نے یونیسکو ورلڈ ایجوکیشن فورم کے دوران چھ نکات پر عمل کرنے کا عہد کیا تھا۔ ان میں بچپن میں ابتدائی تعلیم تک رسائی، بنیادی تعلیم کی فراہمی، نوجوانوں کی تعلیمی ضروریات کو یقینی بنانا، بالغ افراد میں ناخواندگی میں نصف تک کی کمی، صنفی مساوات کو یقینی بنانا اور تعلیم و تربیت کے معیار کو بہتر بنانا شامل ہے۔

اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے (یونیسکو) کی طرف سے اٹھائے جانے والے ان اقدامات کا مقصد بچوں میں تعلیم کے فروغ کو یقینی بناتے ہوئے اقتصادی خوشحالی کی فضاء پیدا کرنا تھا۔ تاہم جمعرات کے دن جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان اہداف کے حصول میں بہت ہی کم ممالک کامیاب ہو سکے ہیں۔

اقوام متحدہ کی اس تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعدد یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ کیوبا، کرغزستان اور منگولیا ایسے ممالک ہیں، جو ان تعلیمی اہداف کے حصول میں کامیاب ہو سکے ہیں۔ پاکستان، یمن اور زیریں صحارا کے متعدد افریقی ممالک اس دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ 164 میں سے صرف نصف ممالک ایسے ہیں، جہاں بچوں کے لیے عالمگیر بنیادی تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔

Kambodscha Bildergalerie Ein Leben im Müll
’غریب بالخصوص بچیوں کی تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے زیادہ کوشش کی ضرورت ہے‘تصویر: Reuters/A. Perawongmetha

یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل ارینا بوکووَا نے اس رپورٹ کے اجراء کے موقع پر کہا، ’’گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران عالمی سطح پر ان تعلیمی اہداف کے حصول میں پیشرفت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1990ء کے مقابلے میں آج لاکھوں بچے اسکول جا رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے اصرار کیا کہ حکومتوں کو اس حوالے سے اپنی ترجیحات کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ارینا نے کہا کہ غریب بالخصوص بچیوں کی تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے زیادہ کوشش کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کی اس تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے غریب بچوں کے اسکول جانے کے امکانات، امیر بچوں کے مقابلے میں چار گنا کم ہیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں اب بھی اٹھاون ملین بچے اسکول جانے سے محروم ہیں جبکہ 100 ملین بچے پرائمری ایجوکیشن مکمل کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق حکومتوں کے اقدامات کی وجہ سے تعلیمی شعبے میں صنفی امتیاز کے حوالے سے بھی بہتری پیدا ہوئی ہے لیکن کم عمر میں شادیوں اور حاملہ ہو جانے کی وجہ سے بچیوں کے حصول تعلیم کو کوششوں میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

سن 2000 میں جمہوریہ سینیگال کے دارالحکومت ڈاکار میں منعقد ہونے والی ایجوکیشن سمٹ میں تعلیم بالغاں پر بھی توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ اُس وقت یہ عہد بھی کیا گیا تھا کہ آئندہ پندرہ برسوں کے دوران ناخواندہ بالغوں کی تعداد کو بھی نصف حد تک کم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم اس حوالے سے بہت ہی معمولی پیشرفت ہو سکی ہے۔ اس تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان پندرہ برسوں کے دوران ناخواندہ بالغوں کی تعداد میں صرف چار فیصد کی کمی ممکن ہو سکی ہے۔ یونیسکو کے مطابق دنیا بھر میں 781 ملین ناخواندہ بالغوں میں دو تہائی تعداد خواتین کی ہے۔

آئندہ ماہ شمالی کوریائی شہر انچیون میں یونیسکو کا ورلڈ ایجوکیشن فورم منعقد کیا جا رہا ہے، جس میں 2030ء تک کے لیے نئے اہداف متعین کیے جائیں گے۔ اقوام متحدہ کی اس ایجنسی نے کہا ہے کہ تعلیمی اہداف کے حصول میں ایک رکاوٹ فنڈز کی کمی بھی رہی ہے۔ اس ادارے نے عالمی برادری زور دیا ہے کہ آئندہ پندرہ برسوں کے دوران اس مد میں بائیس بلین ڈالر کی اضافی رقوم کی ضرورت ہو گی۔

یونیسکو نے حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے اپنے مالی بجٹوں میں تعلیمی شعبے کے لیے پندرہ تا بیس فیصد حصہ مختص کریں۔ اسی طرح ڈونر اداروں پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ تعلیم کے شعبے بہتری کے لیے زیادہ رقوم فراہم کریں۔