1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتافغانستان

اقوام متحدہ کی افغان معیشت کی ڈرامائی صورتحال پر تشویش

6 اکتوبر 2022

طالبان کے اقتدار میں آںے کے بعد افغان معیشت کو صرف ایک سال میں تقریباﹰ پانچ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کی پچانوے سے ستانوے فیصد آبادی اب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4HpLW
Afghanistan Kinderehe
تصویر: HOSHANG HASHIMI/AFP

اقوام متحدہ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان کی معیشت کو 'تباہ کن تنزلی‘ کا سامنا ہے۔ بدھ کے روز جاری کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس معیشت کی تعمیر میں 10 سال لگے تھے، وہ ایک سال سے بھی کم عرصے میں زمین پر آ چکی ہے۔ اگست 2021ء میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل افغان معیشت کا حجم تقریباﹰ 20 ارب ڈالر کی قومی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی)کے ساتھ پہلے ہی بہت کم تھا۔

چھ ملین افغان باشندوں کو شدید قحط سالی کا خطرہ، اقوام متحدہ

Afghanistan | Afghanische Kinder im Dorf Budhak
بین الاقوامی امدادی اداروں کے مطابق افغانستان میں لاکھوں بچے غزائی قلت کے خطرے سے دوچار ہیںتصویر: Bilal Guler /AA/picture alliance

ایشیا اور بحرالکاہل کے لیے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی ڈائریکٹر کنی وگناراجا نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں بتایا، ''صرف ایک سال میں تقریباﹰ پانچ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔یہ تقریباﹰ 10 سال کے جمع شدہ اثاثہ جات اور دولت تھی جو صرف 10 ماہ میں ختم ہو گئی۔‘‘ اقوام متحدہ کی اس اہلکار کا مزید کہنا تھا،''اس طرح کا ڈرامائی زوال ہم نے دنیا میں کہیں بھی نہیں دیکھا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اگست 2021ء کے بعد سے کھانے پینے کی بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے،''افغان اپنی آمدنی کا  60 سے 70 فیصد  اور ان میں سے بعض 80 فیصد تک خوراک اور ایندھن پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘ وگناراجا کا کہنا تھا، ''افغانستان کی 95 سے 97 فیصد آبادی اب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔‘‘ یہ اعداد و شمار صرف ایک سال پہلے 70 فیصد سے کچھ زیادہ تھے۔

اس رپورٹ میں ملک کی معیشت کی ایک تاریک تصویر پیش کی گئی ہے، جس میں بینکاری اور مالیاتی نظام کے خاتمے کو اجاگر کیا گ'لاکھوں افغان موت کے دہانے پر ہیں '، اقوام متحدہ کی تنبیہیا ہے، 2022 ءکے وسط تک سات لاکھ ملازمتیں ختم ہو گئی ہیں، فارغ ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین ملازمین کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر پانچ میں سے ایک بچہ شدید غذائی کمی کے خطرہ کا  شکار ہے اور یہ صورتحال خاص کر جنوبی افغانستان میں زیادہ تشویش ناک ہے۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رسمی معیشت کے خاتمے کی وجہ سے غیر رسمی معیشت کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوا ہے ، جو مجموعی گھریلو پیداوار کے بارہ سے اٹھارہ فیصد کی نمائندگی کرتی ہے، جبکہ ایک سال پہلے یہ  شرح نو سے چودہ فیصد تھی۔

Afghanistan Taliban l Winter - Familien in Not
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد سے عام لوگوں کو معاشی طور پر شدید مشکلات کا سامنا ہےتصویر: Ali Khara/REUTERS

افغانستان میں یو این ڈی پی کے رہائشی نمائندے عبداللہ الدرداری نے کہا کہ صرف انسانی امداد ہی معاشی تباہی کی تلافی نہیں کر سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ امداد کی ضرورت والے افغانوں کی تعداد صرف 14 ماہ میں 19 ملین افراد سے بڑھ کر 22 ملین افراد تک پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ''اگلے تین سالوں میں ہم نجی شعبے کی بحالی کے ذریعے، مقامی برادریوں کے ساتھ کام کر کے، خواتین کاروباری افراد پر توجہ مرکوز کرکے اور زرعی پیداوار، مائیکرو فنانس اور بینکنگ کی بحالی کے ذریعے 20 لاکھ ملازمتیں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

ش ر⁄ ع ا (اے ایف پی)

غربت کی وجہ سے افغانستان ميں بچے برائے فروخت