1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتعالمی

اقوام متحدہ: اجلاس میں روس اور موسمیاتی تبدیلی سر فہرست

21 ستمبر 2022

ایک ایسے وقت جب دنیا توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی مار جھیل رہی ہے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77 ویں اجلاس کے ایجنڈے میں یوکرین پر روسی حملہ اور موسمیاتی تبدیلی سر فہرست رہے۔

https://p.dw.com/p/4H8P2
UN Generalversammlung | Olaf Scholz
تصویر: Eduardo Munoz/REUTERS

نیویارک شہر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس کے پہلے روز یوکرین پر روسی حملے اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے مسائل کا ہی غلبہ رہا۔

ہفتے بھر جاری رہنے والا جنرل اسمبلی کا اجلاس 20 ستمبر منگل کے روز شروع ہوا، جس میں دنیا بھر کے رہنماؤں نے قابل تشویش بین الاقوامی نظام، بھوک اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے عالمی چیلنجوں کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ یوکرین جنگ کے اثرات کی وجہ سے خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے سبب ان مسائل میں مزید شدت آئی ہے۔

 روسی حملے کی مذمت

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے اس اجلاس کے لیے نیویارک آنے کے بجائے، آن لائن خطاب کیا۔ انہوں نے ماسکو کو دانستہ طور پر خوراک کا بحران کھڑا کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

ان کا کہنا تھا، ''کوئی بھی ریاست جو قحط کو بھڑکاتی ہے، جو خوراک تک رسائی کو بھی مراعات بنانے کی کوشش کرتی ہے، جو قحط کے ذریعے قوموں کے تحفظ کو کسی آمر کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی کوشش کرتی ہے، دنیا کو چاہیے کہ ایسی ریاست کے لیے سخت ترین رد عمل کا اظہار کرے۔''

سلامتی کونسل کا یوکرینی صورتِ حال پر اظہارِ تشویش

انہوں نے کہا کہ عام حالات میں یوکرین بڑے پیمانے پر زرعی پیداوار کرتا ہے، تاہم روس یوکرینی بندرگاہوں کی ناکہ بندی اور دیگر ''غیر اخلاقی اقدامات'' کر کے ملکی برآمدات میں خلل ڈالنے کا ذمہ دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''روس کو اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔''

جاپانی وزیر اعظم فومیو کیشیدا نے اپنے خطاب میں یوکرین پر روسی حملے کا جواب دینے میں ادارے کی ناکامی پر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ چونکہ روس کو مستقل رکن کی حیثیت سے ویٹو پاور حاصل ہے اس لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔

اپنی تقریر میں کیشیدا نے کہا کہ اقوام متحدہ عالمی امن کو برقرار رکھنے میں اپنی پوری ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہا ہے اس لیے، ''بین الاقوامی نظام کی بنیاد اس وقت بری طرح سے ہل رہی ہے۔''

فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے اپنے خطاب میں تمام ممالک سے اپیل کی کہ وہ یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کے بارے میں غیر جانبدار نہ رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جنگ ایک نئی قسم کی سامراجیت ہے۔

UN Generalversammlung | Olaf Scholz
جرمن چانسلر نے بھی روس کے جوہری ہتھیاروں اور یوکرین میں جنگی جرائم کے ارتکاب کو اجاگر کرتے ہوئے دوسرے رہنماؤں کو اس بات کی تاکید کی وہ اس معاملے میں سرد مہری کا مظاہرہ نہ کریںتصویر: Jason DeCrow/AP/picture alliance

ماکروں نے اس بات پر زور دیا کہ جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں جب ''یوکرین کی خود مختاری کا احترام کیا جائے، اس کی سرزمین کو آزاد کر دیا جائے اور اس کی سلامتی کو تحفظ فراہم کیا جائے۔''

ہسپانوی وزیر اعظم پیدرو سانچیز کا کہنا تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن یوکرین پر اپنے حملے کے ذریعے، غذائی اشیا کے ساتھ بین الاقوامی برادری کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔'' سانچیز نے مزید کہا کہ ''بھوک سے امن حاصل نہیں ہو سکتا، اور ہم امن کے بغیر بھوک کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے۔''

روس کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے معطل کر دیا گیا

جرمن چانسلر اولاف شولس نے بھی منگل کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران یوکرین پر روسی حملے پر کڑی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واضح اور سادہ طور پر ایک سامراجی عمل ہے۔

ماکروں کی طرح جرمن چانسلر نے بھی روس کے جوہری ہتھیاروں اور یوکرین میں جنگی جرائم کے ارتکاب کو اجاگر کرتے ہوئے دوسرے رہنماؤں کو اس بات کی تاکید کی وہ اس معاملے میں سرد مہری کا مظاہرہ نہ کریں۔

صنعتی ممالک سے زیادہ ذمہ داری نبھانے کا مطالبہ

فلپائن کے صدر فرڈینانڈ مارکوس جونیئر اور مارشل آئی لینڈ کے صدر ڈیوڈ کابوا، دونوں نے ہی صنعتی ممالک اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ پہلے سے ہی موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی مدد  کے لیے اپنی مزید ذمہ داریاں اٹھائیں۔

مارکوس نے موسمیاتی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ''اب' اگر مگر اور کب' کے بارے میں بات کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔'' انہوں نے صنعتی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ گرین ہاؤس گیسوں کو کم کرنے اور ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔

جنرل اسمبلی سے عمران خان کا خطاب، پھر مودی حکومت پر تنقید

ان کا مزید کہنا تھا، ''موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ناہموار ہیں اور تاریخی ناانصافی کی عکاسی کرتے ہیں،جو لوگ اس کے کم سے کم ذمہ دار ہیں وہی سب سے زیادہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ اس ناانصافی کو درست کیا جانا چاہیے اور جن کو مزید کام کرنے کی ضرورت ہے انہیں فوری طور پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔''

انہوں نے مزید کہا کہ ''دنیا کے امیر ترین لوگوں نے اس دنیا کے غریب ترین لوگوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔''

مارشل آئی لینڈ کے صدر ڈیوڈ کابوا نے تنقید کی کہ ''دنیا فوسل ایندھن کی ہماری لت کو توڑنے میں ناکام رہی ہے۔''  انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ موسمیاتی موافقت کے لیے ابھی تک خاطر خواہ سرمایہ کاری نہیں کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا، ''آج ہم دنیا کو اس صدی کے سب سے بڑے چیلنج، موسمیاتی تبدیلی کے عفریت کے خلاف مکمل جنگ کا اعلان کرنے کے لیے، اپنی اپیل کی تجدید کرتے ہیں۔''

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)

ایک ملین سے زائد افراد یوکرین سے نکل چکے ہیں، اقوام متحدہ