1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ میں جرمنی کی مکمل رکنیت کے چالیس سال

پؤہلے سوین/ کشور مصطفیٰ18 ستمبر 2013

چالیس سال قبل جرمنی کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت ملی تھی۔ اس اہم واقعے کی یاد میں نیو یارک میں منعقد ہونے والی تقریب میں سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اس عالمی ادارے کے رُکن کی حیثیت سے جرمنی کے کردار کی تعریف کی۔

https://p.dw.com/p/19jvb
تصویر: Reuters

اس موقع پر بان کی مون نے کہا کہ جرمنی اپنے دوبارہ اتحاد سے پہلے اور بعد میں اقوام متحدہ کے فعال ترین اراکین میں سے ایک رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ وہ جرمنی کے اعلیٰ سطحی نمائندوں اور ماہرین کے مشوروں پر مکمل بھروسہ کرتے ہیں۔ جرمنی نے اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت 18 ستمبر 1973ء میں حاصل کی تھی۔ یعنی اس عالمی ادارے کے قیام کے قریب 30 سال بعد۔ تب جرمنی منقسم تھا۔ وفاقی جمہوریہ جرمنی اور جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک یا مغربی اور مشرقی جرمنی ۔ 40 سال قبل ان دونوں کو مکمل رکنیت ملی تھی۔

اقوام متحدہ میں جرمنی کی رکنیت: کامیابی کی کہانی؟

فرینکفرٹ میں قائم ’پیس اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ‘ سے منسلک ماہر سیاسیات کلاؤس ڈیٹر وؤلف کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ میں جرمنی کی رکنیت چند سال پہلے تک کامیابی سے عبارت سمجھی جاتی تھی۔ غربت کے خلاف جنگ، انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد، ماحولیاتی اور سول بحران کی روک تھام جیسے معاملات میں جرمنی نے بڑی کامیابی سے اپنا کردار ادا کیا۔ تاہم گزشتہ چند سالوں سے جرمنی کی اقوام متحدہ سے متعلق پالیسیوں میں تضاد دیکھنے میں آرہا ہے۔ جرمن ماہر سیاسیات کے بقول جرمنی گرچہ اقوام متحدہ کی اہمیت پر غیر معمولی زور دیتا ہے تاہم اس کا انحصار جی ایٹ اور جی ٹونٹی گروپ پر بڑھتا جا رہا ہے جن میں دنیا کے دیگر ممالک شامل ہیں۔

Sitzung des UN - Sicherheitsrates
جرمنی ہنوز سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا متمنی ہےتصویر: Reuters

کلاؤس ڈیٹر وولف کا یہ بھی کہنا ہے کہ ترقیاتی شعبے میں بھی جرمنی دوطرفہ تعاون اور اشتراک عمل پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ برلن حکومت گرچہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کا ساتھ دیتا ہے تاہم بہت سے موقعوں پر جرمنی نے اس عالمی ادارے کی پالیسیوں کا ساتھ نہیں دیا ہے۔ مثال کے طور پر 2011ء کے اوائل میں لیبیا کے معاملے میں فوجی مداخلت کے ضمن میں اقوام متحدہ کی دو ویٹو پاورز چین اور روس کے ساتھ ساتھ جرمنی نے بھی خاموشی اختیار کر لی تھی، جبکہ وہ اُس وقت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بھی تھا۔

جرمنی اقوام متحدہ میں اصلاحات اور زیادہ اثر و رسوخ کا متمنی

اقوام متحدہ کے دیگر اراکین میں سے ایک کی حیثیت سے جرمنی کا اثر و رسوخ فطری طور پر محدود ہے۔ جرمنی اب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بھی نہیں بن سکا ہے۔ اس کے حصول کی کوشش برلن حکومت ایک عرصے سے کر رہی ہے۔ حال ہی میں جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا تھا کہ سلامتی کونسل کو عالمی جغرافیائی اور سیاسی اہمیت کے مطابق بنایا جائے۔

UN-Milleniumsgipfel Angela Merkel
اقوام متحدہ کے ہزاریہ اہداف کے اجلاس میں بھی جرمنی کی شرکت اہم رہی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

جرمنی نے جاپان، بھارت اور برازیل کے ساتھ مل کر ایک پیش قدمی گروپ تشکیل دیا ہے۔ اس کا کام اقوام متحدہ کی توسیع اور اس عالمی ادارے میں اصلاحات کی کوششیں کرنا ہے۔

جرمنی اقوام متحدہ کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ادا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ اس یورپی ملک کا شمار اقوام متحدہ کو رضا کارانہ طور پر مالی وسائل فراہم کرنے والے تیسرے بڑے ملک میں ہوتا ہے۔