1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: 'پروپیگنڈا‘ پھیلانے کے الزام میں چار صحافی گرفتار

28 جولائی 2021

صحافیوں کو گرفتار کرنے کی افغان حکام کی کارروائی کی میڈیا اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے سخت نکتہ چینی کے جواب میں افغان وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ یہ قدم اس امر کو یقینی بنانے کے لیے اٹھایا گیا تھا کہ صحافی محفوظ رہیں۔

https://p.dw.com/p/3yAHm
Afghanischer Journalist Wali Arian
علامتی تصویرتصویر: Wali Arian

افغان خفیہ ایجنسی، نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) کے حکام نے منگل کے روز جنوبی قندھار کے اسپن بولدک میں داخل ہونے والے چار صحافیوں کو 'دشمنوں کے لیے پروپیگنڈا‘ کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ اسپن بولدک میں اس وقت افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان جنگجووں کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔

صحافیوں کو گرفتار کرنے پر میڈیا اور غیر سرکاری تنظیموں نے افغان حکومت کی سخت تنقید کی ہے۔ افغان وزارت داخلہ نے وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ حکام اس امر کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ تمام صحافی محفوظ رہیں۔ 

وزارت داخلہ کے نائب ترجمان حامد روشن نے کہا کہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی نے گرفتار کیے جانے والے تمام صحافیوں کو علاقے میں جانے سے روکا تھا لیکن انہوں نے ایجنسی کے انتباہ کو نظر انداز کیا۔  ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ صحافیوں کو علاقے میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ سکیورٹی فورسز ان کی جانیں بچانا چاہتی تھیں۔

دوسری طرف مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ صحافی پیر کے روز اسپن بولدک سے واپس لوٹ رہے تھے۔ وہ علاقے میں حکومت کے ان دعووں کی جانچ کرنے گئے تھے کہ طالبان نے درجنوں شہریوں کا قتل عام کر دیا ہے۔ طالبان نے ان الزامات کی پہلے ہی تردید کی ہے۔

Afghanistan Tolo TV-Sender in Kabul
افغانستان میں صحافیوں کو انتہائی مشکل حالات میں کام کرنا پڑرہا ہےتصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar

افغان میڈیا پر نگاہ رکھنے والی تنظیم این اے آئی نے کہا کہ منگل کے بعد سے ان صحافیوں کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں چل رہا ہے۔ تنظیم نے بتایا کہ ان میں سے تین صحافی بسم اللہ وطن دوست، قدرت سلطانی اور محب عبیدی ایک مقامی ریڈیو اسٹیشن 'ملت زاغ‘ کے لیے کام کرتے ہیں جبکہ ثناء اللہ صائم چین کی خبر رساں ایجنسی شنہوا کے کیمرہ مین کے طورپر کام کرتے ہیں۔

وزارت داخلہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا،”دہشت گردوں کے حق میں اور افغانستان کے قومی مفاد کے خلاف کسی بھی طرح کا پروپیگنڈا جرم ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ صحافیوں کو ’پروپیگنڈا‘ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور سکیورٹی ایجنسیاں اپنی تحقیقات کر رہی ہیں۔

طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر سے جاری ایک بیان میں 'افغان انتظامیہ‘ کے ذریعہ صحافیوں کی گرفتاری کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا،”یہ چاروں صحافی صرف اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے، واقعات کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہے تھے اور ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ حقیقت کو سامنے لانے کی کوشش کر رہے تھے۔“

طالبان امن چاہتے ہی نہیں، افغان صدر

 انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان چاروں صحافیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

Taliban-Offensive in Afghanistan | Armee in Kandahar
اسپن بولدک میں افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان جنگجووں کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیںتصویر: Sananullah Seiam/XinHua/picture alliance

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ ہمیں نیشنل سکیورٹی ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے قندھار میں چار صحافیوں کی گرفتاری پر تشویش ہے۔

 این اے آئی نے کہا کہ واشنگٹن کی جانب سے ستمبر تک امریکی فوجیوں کے انخلا کے اعلان کے بعد سے صحافیوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ حکومت اظہار رائے کی آزادی کی حمایت کرے گی۔

این اے آئی کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومت اسی طرح (گرفتاریاں) کرے گی اور میڈیا پر پابندیاں عائد کرنا چاہتی ہے تو ہم سب سے بڑی کامیابی سے محروم ہوجائیں گے۔

طالبان کی چڑھائی، افغان فوجی بھاگ کر پاکستان میں داخل

این اے آئی نے صحافیوں کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور ان کو فوراً رہا کرنے کا مطالبہ کیاہے۔

خیال رہے کہ افغانستان میں صحافیوں کو انتہائی مشکل حالات میں کام کرنا پڑرہا ہے۔ انہیں اکثر دھمکی اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ج ا/ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)