1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں یونیورسٹیاں کھلنی شروع ہو گئیں، طالبات کم

2 فروری 2022

گزشتہ برس اگست میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ کچھ یونیورسٹیاں کھول دی گئی ہیں۔ ان یونیورسٹیوں میں طالبات کی تعداد فی الحال کم دکھائی دے رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/46Q75
Afghanistan Universität Kabul 2020
تصویر: Sayed Khodaiberdi Sadat/AA/picture alliance

گزشتہ برس امریکی اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تھا اور قریب قریب سبھی تعلیمی ادارے افراتفری کی صورت حال میں بند ہو کر رہ گئے تھے۔ ایسے خدشات کا اظہار بھی کیا گیا تھا کہ طالبان کی حکومت میں لڑکیوں کو تعلیم کے مواقع میسر نہیں آئیں گے۔

ان تعلیمی اداروں میں خاص طور پر سیکنڈری اسکول برائے طالبات جیسے ادارے شامل تھے۔ اب پہلی مرتبہ پبلک یونیورسٹیاں کھلنی شروع ہو گئی ہیں۔ گو ابھی ان کی تعداد بظاہر کم ہے اور ان میں پہنچنے والی طالبات کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔

افغانستان میں بدلتے رویے، بچیوں کی تعلیم پر سجھوتہ نہیں

ایک اہم نشان

حکام نے لغمان، قندھار، نمروز، فراہ اور ہلمند کی یونیورسٹیوں کے باضابطہ کھولے جانے کی تصدیق کی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رواں ماہ کے دوران کچھ اور شہروں کی جامعات کو بھی کھول دیا جائے گا۔ حکام کے مطابق فروری کے اختتام پر قریب سبھی یونیورسٹیوں کو مکمل طور پر فعال کر دیا جائے گا۔

Afghanistan Bildergalerie
طالبان کے مطابق تعلیمی اداروں میں طالبات اور طلبہ اکھٹے نہیں بلکہ علیحدہ علیحدہ بیٹھیں گےتصویر: AAMIR QURESHI AFP via Getty Images

ایک تجزیہ کار نے اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان حکومت کی جانب سے ملکی یونیورسٹیوں کو کھولنے کا فیصلہ انتہائی اہم قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ ایسے اقدامات سے ہی اِن کی حکومت کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہو گی۔

طالبان یہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں طالبات کے تعلیم حاصل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں سوائے اس کے کہ وہ کمروں میں علیحدہ بیٹھیں گی اور نصاب بھی اسلامی قوانین کے تحت ہونا ضروری ہے۔

پُرمسرت موقع

افغان صوبے ننگرہار کی یونیورسٹی کی طالبہ زرلاشتا حقمال نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے یونیورسٹی کھلنے کو ایک پرمسرت موقع قرار دیا۔ وہ ننگرہار یونیورسٹی میں قانون اور پولیٹیکل سائنس کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ طَلَبہ میں ایسی فکر پائی جاتی ہے کہ یونیورسٹی کہیں دوبارہ بند نہ کر دی جائیں۔

افغانستان: خواتین کے حقوق کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کیے جائیں، طالبان

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مقامی نمائندے نے لغمان یونیورسٹی میں بدھ دو فروری کو طالبات کے ایک گروپ کو داخل ہوتے دیکھا جو برقعوں میں ملبوس تھا۔ نوجوان طلبا بسوں اور ٹیکسیوں پر سوار ہو کر جامعات پہنچے اور ان کے چہروں پر خوشی عیاں تھی۔ یہ طلبا مقامی شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔

Afghanistan | Gharjistan Universität in Kabul
حکام نے لغمان، قندھار، نمروز، فراہ اور ہلمند کی یونیورسٹیوں کے باضابطہ کھولے جانے کی تصدیق کی ہےتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

صحافیوں کو لغمان یونیورسٹی اور دوسری کھولی جانے والی جامعات کے اندر داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ یونیورسٹیوں میں طلبا و طالبات کی تعداد معمول سے بہت کم تھی اور طالبان جنگجو مرکزی دروازوں پر محافظ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ایک طالب علم ملک صمدی کا کہنا ہے کہ انہیں بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹیوں میں تعلیم شرعی قوانین کے مطابق فراہم کی جائے گی۔

مناسب مگر اہم فیصلہ

منگل پہلی فروری کو اقوام متحدہ کے مقامی مشن نے بھی یونیورسٹیوں کو دوبارہ کھولنے کے فیصلے کو ایک اہم قدم قرار دیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ جامعات کھولنے کا فیصلہ طالبان حکومت نے ناروے میں مغربی حکام کے ساتھ اولین مذاکرت کے ایک ہفتے کے بعد کیا ہے۔

طالبان امریکا اور دیگر سابق 'دشمنوں' سے تعلقات استوار کرنے کے خواہاں

ابھی تک طالبان کی حکومت کو کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے لیکن طالبان کی حکومت کو تسلیم ان مثبت اقدامات کے تناظر میں کیے جانے کا اظہار سامنے آ چکا ہے۔ دوسری جانب طالبان اس مرتبہ حکومتی عمل میں لچکدار رویہ اپنانے کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں۔

ع ح /ع ت (اے ایف پی)