1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں کون کون قانون ساز بننا چاہتا ہے؟

بینش جاوید AFP
17 اکتوبر 2018

ڈاکٹر، مولوی، جنگجو سرداروں کے بیٹے، عورتوں کے حقوق کی عمبردار خواتین اور ایک جیل کا قیدی 20 اکتوبر کو  جنگ زدہ ملک افغانستان میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/36gIR
Afghanistan Kabul Wahlplakat Parlamentswahl
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul

افغانستان کے عام انتخابات میں پچیس سو امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے افراد پہلی مرتبہ سیاسی میدان میں اپنی قسمت آزمائیں گے۔ ملک کے کئی علاقوں میں ان امیدواروں کے پوسٹر دیواروں، کھمبوں  اور ریستورانوں میں نظر آ رہے ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ ووٹروں کی حمایت حاصل کر سکیں۔ ایوان زیریں کی249 نشستوں کے لیے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں نے افغان عوام سے مالی بدعنوانی کو ختم کرنے اور سکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے وعدے کیے ہیں۔

احمد تمیم رحمان کا شمار ان آٹھ سو امیدواروں میں ہوتا ہے جو کابل کی 33 نشستوں کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ رحمان کا کہنا ہے،’’ میں میڈیکل ڈاکٹر ہوں، اس لیے میں معاشرے کی سوچ کو سمجھتا ہوں۔ ميں سمجھتا ہوں کہ مسائل کہاں ہیں اور مجھے ان مسائل کو کیسے حل کرنا ہے۔ میں موجودہ حالات، غربت اور جنگ سے بہت پریشان ہوں۔‘‘

Afghanistan Wahlkampf
تصویر: Reuters/O. Sobhani

ایک ایسے ملک میں جہاں مسلسل خودکش حملوں کا خطرہ ہو اور جہاں سکیورٹی افواج اور عسکریت پسندوں کے مابین جنگ جاری ہو وہاں  انتخابی مہم چلانا آسان نہیں ہے۔ اب تک دہشت گردی کے واقعات میں دس امیدوار ہلاک ہو چکے ہیں۔ طالبان نے انتخابی عمل میں حصہ لینے والے افراد کو دھمکی دی ہے کہ اگر وہ اپنے آپ کو اس عمل سے بے دخل نہیں کریں گے تو ان پر حملے کیے جائیں گے۔ کابل میں مقیم خواتین کے حقوق کی علمبرادر ودا ساغارے نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،’’ میں نے ہمشہ خواتین کے لیے آواز اٹھائی اور اپنی جان کی پرواہ نہیں کی۔ میں اس ملک کی پارلیمان کی رکنيت حاصل کرنے کے لیے پر عزم ہوں۔‘‘

Afghanistan Kabul Soldat vor Wahlplakat
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul

افغانستان میں صوبائی اسمبلیوں کا رکن بننا معاشی طور پر بھی کافی فائدہ مند ہے۔ صوبائی اسمبلی کے ایک ممبر کو ماہانہ لگ بھگ 2600 ڈالر تنخواہ ملتی ہے۔ سکیورٹی اور دیگر اخراجات کے لیے بھی رقم دی جاتی ہے۔ اور جیل میں قید کی استثنیٰ بھی بہت سے افراد کے لیے باعث کشش ہے۔ اس عہدے پر فائز ہونے والے اپنے کاروبار میں بھی کافی فائدے حاصل کر پاتے ہیں۔

Afghanistan Wahlkampf
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar

امیدواروں سے متعلق خبروں میں ایک دلچسپ خبر ایک قیدی سے متعلق ہے۔ ایک امیدوار جو مغربی صوبے فرح کی جیل میں دو سال قید کی سزا بھگت رہا ہے، اسے امید ہے کہ وہ کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ اس سال اگست میں شائع ہونے والے ایک سروے کے مطابق افغانستان میں صرف دس فیصد عوام کا خیال ہے کہ قومی اسمبلی کے اراکین ملک کو درپيش معاملات کی فکر کرتے ہیں۔ 37 فیصد سمجھتے ہیں کہ قانون سازوں کو اپنے مفادات زیادہ عزیز ہیں۔ ’افغانستان اينيليسٹس نیٹ ورک‘ کے شریک ڈائریکٹر تھامس روٹیگ کا کہنا ہے،’’ انتخابات میں جیتنے کے لیے رقوم چاہیيں ناکہ ہمدردی اور انسانیت۔‘‘

افغانستان: بقا کے لیے انتخابی امیدواری