افغانستان میں کون کون قانون ساز بننا چاہتا ہے؟
17 اکتوبر 2018افغانستان کے عام انتخابات میں پچیس سو امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے افراد پہلی مرتبہ سیاسی میدان میں اپنی قسمت آزمائیں گے۔ ملک کے کئی علاقوں میں ان امیدواروں کے پوسٹر دیواروں، کھمبوں اور ریستورانوں میں نظر آ رہے ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ ووٹروں کی حمایت حاصل کر سکیں۔ ایوان زیریں کی249 نشستوں کے لیے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں نے افغان عوام سے مالی بدعنوانی کو ختم کرنے اور سکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے وعدے کیے ہیں۔
احمد تمیم رحمان کا شمار ان آٹھ سو امیدواروں میں ہوتا ہے جو کابل کی 33 نشستوں کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ رحمان کا کہنا ہے،’’ میں میڈیکل ڈاکٹر ہوں، اس لیے میں معاشرے کی سوچ کو سمجھتا ہوں۔ ميں سمجھتا ہوں کہ مسائل کہاں ہیں اور مجھے ان مسائل کو کیسے حل کرنا ہے۔ میں موجودہ حالات، غربت اور جنگ سے بہت پریشان ہوں۔‘‘
ایک ایسے ملک میں جہاں مسلسل خودکش حملوں کا خطرہ ہو اور جہاں سکیورٹی افواج اور عسکریت پسندوں کے مابین جنگ جاری ہو وہاں انتخابی مہم چلانا آسان نہیں ہے۔ اب تک دہشت گردی کے واقعات میں دس امیدوار ہلاک ہو چکے ہیں۔ طالبان نے انتخابی عمل میں حصہ لینے والے افراد کو دھمکی دی ہے کہ اگر وہ اپنے آپ کو اس عمل سے بے دخل نہیں کریں گے تو ان پر حملے کیے جائیں گے۔ کابل میں مقیم خواتین کے حقوق کی علمبرادر ودا ساغارے نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،’’ میں نے ہمشہ خواتین کے لیے آواز اٹھائی اور اپنی جان کی پرواہ نہیں کی۔ میں اس ملک کی پارلیمان کی رکنيت حاصل کرنے کے لیے پر عزم ہوں۔‘‘
افغانستان میں صوبائی اسمبلیوں کا رکن بننا معاشی طور پر بھی کافی فائدہ مند ہے۔ صوبائی اسمبلی کے ایک ممبر کو ماہانہ لگ بھگ 2600 ڈالر تنخواہ ملتی ہے۔ سکیورٹی اور دیگر اخراجات کے لیے بھی رقم دی جاتی ہے۔ اور جیل میں قید کی استثنیٰ بھی بہت سے افراد کے لیے باعث کشش ہے۔ اس عہدے پر فائز ہونے والے اپنے کاروبار میں بھی کافی فائدے حاصل کر پاتے ہیں۔
امیدواروں سے متعلق خبروں میں ایک دلچسپ خبر ایک قیدی سے متعلق ہے۔ ایک امیدوار جو مغربی صوبے فرح کی جیل میں دو سال قید کی سزا بھگت رہا ہے، اسے امید ہے کہ وہ کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ اس سال اگست میں شائع ہونے والے ایک سروے کے مطابق افغانستان میں صرف دس فیصد عوام کا خیال ہے کہ قومی اسمبلی کے اراکین ملک کو درپيش معاملات کی فکر کرتے ہیں۔ 37 فیصد سمجھتے ہیں کہ قانون سازوں کو اپنے مفادات زیادہ عزیز ہیں۔ ’افغانستان اينيليسٹس نیٹ ورک‘ کے شریک ڈائریکٹر تھامس روٹیگ کا کہنا ہے،’’ انتخابات میں جیتنے کے لیے رقوم چاہیيں ناکہ ہمدردی اور انسانیت۔‘‘