افغانستان میں صدارتی انتخابات کی تیاریاں
14 جون 2009سياسی ماہرين اور مبصرين کا اس بارے ميں بہت اختلاف رائے ہے کہ افغانستان کے اگست ميں ہونے والے صدارتی انتخابات ميں طالبان کا طرز عمل کيا ہوگا۔بعض کا خيال ہے کہ طالبان انتخابات ميں حصہ ليں گے،ليکن بعض دوسرے مبصرين کا خيال ہے کہ طالبان انتخابات کانہ صرف بائيکاٹ کريں گےبلکہ ان کو ناکام بنانے کی کوشش کريں گے۔
افغان صدر حامدکرزائی طالبان کو سياست ميں شامل کرنے کی کوشش کررہے ہيں ، تاکہ وہ ان کی مزاحمت کو کمزور کرسکيں ليکن اب تک وہ اس ميں ناکام رہے ہيں۔طالبان اور ان کے قائد ملا عمر کے نزديک کرزائی واشنگٹن کی کٹھ پتلی ہيں اور بين الاقوامی فوجی اتحاد ايک قابض فوج ہے۔
اس کے باوجودافغان رائے عامہ کے محقق وحيد مشدہ کا کہنا ہے کہ طالبان انتخابات ميں حصہ ليں گے۔
"طالبان نے خفيہ طور پر قند ہار ميں کرزائی کے نمائندے اور بھائی قيوم کرزائی کے ساتھ اس بارے ميں ايک سمجھوتہ کيا ہے۔"
وحيد کا کہنا ہے کہ طالبان بيس اگست کے صدارتی انتخابات کو ناکام بنانے کی کارروائی نہيں کريں گے۔
چنانچہ درپردہ کرزائی حکومت اور طالبان ميں قربت پائی جاتی ہے ۔تاہم امريکی وزير دفاع گيٹس نے خبردار کيا ہے کہ جب تک حالات طالبان کے لئے ناسازگار نہيں ہوجاتے اس وقت تک ان سے مصالحت ممکن نہيں کيونکہ وہ ہميشہ اپنی طاقتور پوزيشن سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کريں گے ۔تاہم سوات ميں پاکستانی فوج کے بڑے حملے سے طالبان بہت کمزور ہو گئے ہيں۔
صدر کرزائی کی صدارتی مدت اکيس مئی کو ختم ہوچکی ہے ۔ اعلی ترين عدالت کے حکم کے تحت اس ميں انتخاباتی نتائج کے معلوم ہونے تک توسيع کردی گئی ہے۔