1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں سماجی رکاوٹیں ختم کرنے کی کوشش

23 دسمبر 2011

قریب دوسال پہلے تک، کابل کی رہائشی زُلفیہ کے پاس تعلیم ترک کر کے گھر بیٹھنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔

https://p.dw.com/p/13YSe
NAZO کی طرف سے بنائی گئی جیولریتصویر: NAZO

اب، NAZO نامی ایک جرمن تنظیم افغانستان میں زُلفیہ جیسی خواتین کو اپنے خوف پر قابو پانے اور آزاد شہری بن کر جینے میں مدد کر رہا ہے۔

21 سالہ زُلفیہ کا کہنا ہے، ’’میں مالی مسائل کی وجہ سے تعلیم جاری نہیں رکھ سکی۔ پہلے مجھ میں ہمت نہیں تھی اور لوگوں سے کچھ خاص رابطے بھی نہیں تھے۔ میں شرمیلی ضرور تھی، لیکن پھر بھی مجھے گھر سے باہر جا کر کام کرنے میں دلچسپی تھی۔‘‘

لطیفہ منصوری، ہرات میں افغانستان کے کاروباری یونین کی سربراہ ہیں۔ لطیفہ کہتی ہیں، ’’ملک کی موجودہ سماجی، سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی حالت کی وجہ سے خواتین کے لیے روزگار کے مواقع کافی کم ہیں۔ اس کی علاوہ وہ روایتی امتیازی سلوک کی بھی شکار ہیں۔اسی لیے اپنے گھروں سے نکل کر کام کرنے کی اجازت ملنا اُن کے لیے انتہائی دشوار ہے۔‘‘

Schmuckausstellung in Stuttgart
افغانستان میں خواتین اقتصادی طور پر خود انحصار ہوتی جا رہی ہیںتصویر: NAZO

زُلفیہ اُن سینکڑوں خواتین میں سے ایک ہیں، جنہوں نے NAZO کی طرف سے ہینڈی کرافٹس کی تربیت حاصل کی ہے۔ افغانستان میں خواتین کے بدلتے ہوئے کردار پر بات کرتے ہوئے منصوری نے کہا کہ، ‘‘ہمیں خوشی ہے کہ افغان خواتین اب زیادہ آزاد ہیں اور ان کا شمار معاشرے کے فعال ارکان میں کیا جا سکتا ہے۔’’

لیکن تقریباﹰ دس برس پہلے تک، افغانستان میں ‘‘دہشت گردی کے خلاف جنگ’’ کے آغاز کے وقت، حالات ایسے نہیں تھے۔ خواتین طالبان کے جبر اور جنگ کی تباہی کی وجہ سےدباؤ کا شکار تھیں۔

ایلکے یونِیشکائیٹ کامنسکی ایک جرمن فلمساز ہیں۔ انہوں نے 1985 سے لے کر اب تک افغانستان میں خواتین کے حوالے سے کئی فلمیں بنا چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’2002 میں جب میں دوبارہ افغانستان گئی، تو میں وہاں تین ایسی خواتین سے ملی جنہوں نے میری فلموں میں اداکاری کی تھی۔ مجھے NAZO کے بارے میں انہی سے پتہ چلا۔‘‘

افغانستان میں عورتوں کے مسائل پر بنائی گئی فلم’’کابل کی خواتین- جلتے آسمان کے ستارے‘‘ کامنسکی کی چند مشہور فلموں میں سے ایک ہے۔

NAZO کو ابتداء میں جرمن وزارت برائے اقتصادی تعاون کی طرف سے ڈیڑھ لاکھ یورو کی مالی امداد دی گئی۔ اس تنظیم کی طرف سے 2004 میں تربیتی عمل کا آغاز ہوا۔ گزشتہ سات برسوں میں NAZO پانچ سو سے زائد خواتین کو جیولری، ٹیکسٹائل اور چمڑے کی ڈیزائنگ کے علاوہ مختلف شعبوں میں تربیت دی جا چکی ہے۔ یہ تنظیم قانونی اور خاندانی منصوبہ بندی کے مسائل پر مشاورت بھی فراہم کرتی ہے۔

اس وقت افغانستان میں NAZO کے چار مختلف مراکز ہیں، جہاں ان کے نمائندے بھی موجود ہیں۔ یہ مراکز کارتِ نو، شویکی، کَماری اور احمد شاہ بابا مینا میں واقع ہیں۔

’’میں نے اس سنٹر کے قیام کے بارے میں سنا تھا۔ پھر میں نے اخبار میں ان کی طرف سے دیے گئے روزگار کے مواقعوں کا اشتہار پڑھا۔ یہ ایک بہت ہی اچھی خبر تھی، زُلفیہ نے بتایا۔ انہوں نے اپنے والدین کے مشورے سے اٹھارہ مہینوں پر مشتمل جیولری ڈیزائنگ کے کورس میں داخلہ لیا۔ اب وہ پندرہ زیر تربیت لڑکیوں کو وہی کورس پڑھاتی ہیں۔

’’میں اتنا کما لیتی ہوں کہ اپنی ضروریات کو پورا کر سکوں، اب نہ صرف مالی حوالے سے میں خود مختار ہوں بلکہ  کبھی کبھی اپنے خاندان والوں کی مالی امداد بھی کر تی ہوں۔‘‘

 تاہم NAZO جیسی تنظیموں کو افغانستان میں اپنے منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے کئی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ کامنسکی کا کہنا ہے، ’’ گاؤں کی عورتوں کی زندگی بہت ہی مشکل ہے، کیونکہ انہوں نے جنگ کے باعث بدلتے حالات کا سامنا کیا ہے۔ ہم تو انہیں صرف پیسے اور مشورے ہی دے سکتے ہیں، لیکن اصل کام تو اس علاقے کی خواتین خود کرتی ہیں، جیسے کہ گاؤں کے مُلاؤں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ساتھ اُن کے تعاون کے بارے میں بات چیت کرنا۔‘‘

ہرات میں کاروباری یونین کی سربراہ منصوری جو ایک کاروباری گروپ کی قیادت کر رہی ہیں، مختلف تنظیموں کے درمیان تعاون کو فروغ دینے اور اُن کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اُن کے خیال میں افغانستان میں کاروبار کرنے کے لیے سرمایہ حاصل کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ملک میں پیشہ ورانہ تربیت اور صلاحیت بڑھانے کے مواقعے محدود ہیں۔ اس کے علاوہ، امور نسواں کی سرگرمیوں کے لیے حکومتی اداروں کی طرف سے بھی حوصلہ افزائی کی کمی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغان مصنوعات عام طور پر اعلی معیار کی نہیں ہوتیں، جس کی وجہ سے ان کی پروموشن میں بھی مشکل ہوتی ہے۔

Frau Marina Niyazi Direktorin von NAZO in Afghanistan
مارینہ نیازی نے NAZO کے لیے اہم کردار ادا کیا ہےتصویر: NAZO

ان چیلنجز کے باوجود، اب تک منصوری جیسی خواتین کاروباری شخصیات اور NAZO جیسی تنظیموں کو کافی حوصلہ افزائی ملی ہے۔ منصوری نے خدیجة الکبرہ کے نام سے ہرات میں ایک کاروباری سنٹر قائم کیا ہے، اور اب تک وہ بھارت، تاجکستان، کابل، ہرات اور مزار شریف میں افغان دستکاری کی تیرہ نمائشیں کروا چکی ہیں۔

افغانستان میں امور خواتین کی وزارت NAZO کی حوصلہ افزائی کے لیے اس تنظیم کو انعام بھی دے چکی ہے۔ اس کی مصنوعات ملکی اور بین الاقوامی سطح پر فروخت کی جاتی ہیں۔

کابل میں اس مرکز کی سربراہ مرینا نیازی کا کہنا ہے، ’’ہمارا منصوبہ اُن ضرورت مند خواتین تک پہنچنا ہے، جو دیہی علاقوں اور ان کے مضافات میں رہتی ہیں، اورجن کی تمام سہولیات تک رسائی مشکل ہے۔‘‘

NAZO زُلفیہ کی زندگی میں انقلابی تبدیلی لائی ہے۔ زلفیہ کہتی ہیں، ’’میں دن میں NAZO میں کام کرتی تھی جبکہ شام میں تعلیم حاصل کرتی تھی اور اپنی پڑھائی کا خرچ خود اٹھاتی تھی۔ اب میں نے گریجویشن مکمل کر لی ہے۔‘‘

رپورٹ: تمنا جمیلی

ترجمہ: عائشہ حسن

ادارت: افسر اعوان