افغانستان میں دو امریکی فوجی لاپتہ
25 جولائی 2010نیٹو کی طرف سے جاری کئے گئے ایک بیان کے مطابق یہ دونوں فوجی اہلکار جمعہ کو اپنے کمپاوٴنڈ سے باہر گئے اور پھر واپس نہیں لوٹے۔ بعض اطلاعات کے مطابق غائب ہونے والے دو فوجیوں میں سے ایک مارا جا چکا ہے۔
ایک فوجی عہدے دار کے مطابق ان فوجیوں کی گاڑی دارالحکومت کابل کے جنوب میں لوگار صوبے سے بر آمد کی گئی ہے۔ افغانستان میں تعینات انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس ISAF نے فوجیوں کی تلاش کا کام شروع کر دیا ہے۔
اُدھر طالبان باغیوں کے ایک ترجمان نے اس بات سے صاف انکار کردیا ہے کہ امریکی فوجیوں کو غائب کردینے کے عمل میں اس تنظیم کا کوئی ہاتھ ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک نامعلوم مقام سے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو ٹیلی فون پر بتایا:''ہمیں تاحال اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے، اس لئے ہم امریکی فوجیوں کے غائب ہونے کی تصدیق نہیں کر سکتے ہیں۔''
لوگار صوبے کے گورنر کے ترجمان دین محمد نے بتایا کہ لاپتہ امریکی فوجی جمعہ کی شام اپنے بیس کیمپ سے باہر گئے تھے۔''ہماری اطلاع کے مطابق ایک فوجی مارا گیا ہے جبکہ دوسرا باغیوں کے قبضے میں ہے۔''
خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق لوگار میں دو مقامی ریڈیو چینلز پر یہ خبر دی گئی کہ جو کوئی بھی لاپتہ فوجیوں کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرے گا، اُسے دس ہزار ڈالر کے انعام سے نوازا جائے گا۔
افغانستان میں گزشتہ نو برسوں سے جاری جنگ میں حالیہ مہینوں کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادی فوجیوں پر حملوں میں زبردست شدت آئی ہے۔ طالبان باغیوں نے ہلمند اور قندہار صوبوں میں اتحادی فوجیوں کے خلاف اپنی کارروائیوں میں تیزی لائی ہے۔
رواں سال جون میں بحران زدہ افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں اور دیگر باغیوں کے مختلف حملوں میں کم از کم ایک سو اتحادی فوجی مارے گئے۔ نو سالہ افغان جنگ میں یہ مہینہ نیٹو اور آئی سیف دستوں کے لئے فوجی ہلاکتوں کے اعتبار سے خونریز ترین ثابت ہوا تھا۔
افغانستان میں سن 2001ء سے اب تک طالبان کے حملوں میں ہلاک ہونے والے غیر ملکی فوجیوں کی مجموعی تعداد 1940 سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ رواں سال مرنے والے فوجیوں کی تعداد بھی 370 سے زیادہ ہو چکی ہے۔
iCasualties.org ویب سائٹ کے مطابق افغان جنگ کے دوران مرنے والے اتحادی فوجیوں میں سب سے زیادہ تعداد امریکیوں کی ہے۔
اس وقت افغانستان میں موجود امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کے فوجیوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 43 ہزار ہے، جو آنے والے ہفتوں میں ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ لیکن اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی کے باوجود طالبان عسکریت پسند ملک کے مختلف حصوں میں آسانی سے فوجی ٹھکانوں اور اہم سرکاری مراکز پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی
ادارت: افسر اعوان