افغانستان میں خشک سالی، رقوم کے بدلے بچوں کی شادیوں کی وجہ
27 نومبر 2018بچوں کی بہبود کے عالمی ادارے یونیسف نے کہا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ کئی عشروں میں آنے والی بد ترین خشک سالی کے سبب ہزار ہا افغان شہریوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر ملک کے دیگر حصوں میں منتقل ہونا پڑا ہے۔ یونیسف کے مطابق اس صورت حال میں بھوک اور معاشی بد حالی کا شکار ان افراد میں سے بیشتر زندہ رہنے کے لیے اپنے بچوں کی شادیاں کرنے پر مجبور ہیں تاکہ اس کے بدلے ملنے والی رقم اور جہیز سے وہ اپنی گزر بسر کر سکیں۔
یونیسف نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ہرات، بادغیس اور غور کے صوبوں میں اس سال خشک سالی کے سبب قریب دو لاکھ تیئیس ہزار افغان باشندے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
عالمی تنظیم برائے خوراک اور زراعت نے بتایا ہے کہ ان افغان شہریوں کو دن میں تین وقت کھانا میسر نہیں جس کے باعث یہ اپنے مویشی بیچ کر شہروں کا رخ کر رہے ہیں جہاں ان کے لیے امداد اور دیگر سہولیات تک رسائی حاصل کرنا آسان ہے۔
تاہم بچوں کی بہبود کے عالمی ادارے یونیسف کا کہنا ہے کہ بعض خاندان اس سے کہیں زیادہ سخت اقدامات اٹھا رہے ہیں جن میں رواں برس جولائی اور اکتوبر کے درمیان ہرات اور باغدیس کے صوبوں میں ایک سو اکسٹھ بچوں کی منگنیاں یا شادیاں رجسٹر کی گئی ہیں۔ ان بچوں میں ایک سو پچپن لڑکیاں جبکہ پانچ لڑکے ہیں۔
یونیسف کے ترجمان ایلسن پارکر نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ یہ گزشتہ کئی عشروں میں افغانستان میں آنے والی بد ترین خشک سالی ہے۔ جس میں بچے خاندانوں کے کفیل بن رہے ہیں۔ بچوں کی شادی کے بدلے والدین کو جہیز کے پیسے ملتے ہیں جس سے وہ اپنی گزر بسر کر پاتے ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے مطابق خشک سالی سے متاثرہ بیشتر خاندانوں کو خوراک، نقل مکانی کے لیے ٹرانسپورٹ اور علاج معالجے کے لیے رقم ادھار لینی پڑتی ہے۔
ص ح / ع ب / تھومس روئٹرز فاؤنڈیشن