1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: طالبان کے بڑھتے حملے اور مستقبل کے خدشات

افسر اعوان8 دسمبر 2014

افغانستان غیر ملکی افواج کی واپسی کی صورت میں خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا ہے مگر دوسری طرف رواں برس سکیورٹی کے حوالے سے بد ترین سال ثابت ہوا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ معاشی حالات بھی خراب ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1E10h
تصویر: Getty Images/S. Marai

امریکی سربراہی میں افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج شیڈول کے مطابق رواں برس کے آخر تک افغانستان سے واپس روانہ ہو جائیں گی۔ اب تک طے شدہ منصوبے کے مطابق محض چند ہزار غیر ملکی افواج وہاں تعینات رہیں گی مگر وہ بھی دہشت گردوں کے خلاف براہ راست آپریشن میں حصہ نہیں لیں گی۔ ان حالات میں 350,000 افغان فوجی ہی ملکی سکیورٹی کی ذمہ دار ہوں گے۔

ان حالات میں 2015ء افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل سال سمجھا جا رہا ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق نئے افغان صدر اشرف غنی کو ایک ایسی حکومت ملی ہے جو نہ صرف معاشی حوالے سے پریشانیوں میں گِھری ہوئی ہے بلکہ سکیورٹی کی صورتحال بھی خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔

رواں برس ہونے والی سویلین ہلاکتوں کی تعداد 8000 تک پہنچ چکی ہے
رواں برس ہونے والی سویلین ہلاکتوں کی تعداد 8000 تک پہنچ چکی ہےتصویر: Reuters/O. Sobhani

اقوام متحدہ کے مطابق رواں برس وسط نومبر تک افغانستان میں ہونے والی سویلین ہلاکتوں کی تعداد 8000 تک پہنچ چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ یہ تعداد کسی بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ہلاکتوں کے ذمہ دار طالبان سمیت حکومت مخالف گروہ ہیں۔

صرف نومبر 2014ء کے دوران افغان دارالحکومت کابل میں 16 حملے کیے گئے۔ مغربی سکیورٹی حکام کے مطابق 2009ء کے بعد سے کسی ایک ماہ کے دوران کیے جانے والے یہ سب سے زیادہ حملے تھے۔

افغان وزارت داخلہ کے ایک اہلکار کے مطابق رواں برس کے دوران 6000 سے زائد فوجی اور پولیس اہلکار اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ گزشتہ برس یہ تعداد 4300 تھی۔ اس طرح سال 2001ء کے بعد سے اب تک 2014ء افغان سکیورٹی فورسز کے لیے ہلاکت خیز ترین سال ثابت ہوا ہے۔

نیٹو فورسز کے انخلاء کے عمل کے باعث افغان طالبان کے حوصلے مزید بلند ہو گئے ہیں اور اب وہ سینکڑوں کی تعداد حملہ کرتے ہیں کیونکہ انہیں فضائی حملوں کا خطرہ نہیں ہوتا۔ افغان جنگ کے حوالے سے یہ ایک رجحان ہے۔

اشرف غنی کو ایک ایسی حکومت ملی ہے جو نہ صرف معاشی حوالے سے پریشانیوں میں گِھری ہوئی ہے بلکہ سکیورٹی کی صورتحال بھی خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے
اشرف غنی کو ایک ایسی حکومت ملی ہے جو نہ صرف معاشی حوالے سے پریشانیوں میں گِھری ہوئی ہے بلکہ سکیورٹی کی صورتحال بھی خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہےتصویر: Dan Kitwood/WPA Pool/Getty Images

ایک سابق افغان جنرل امان اللہ امان کے مطابق، ’’سکیورٹی کی صورتحال بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے اور حکومت اس قابل نہیں ہے کہ وہ اس صورتحال کو کنٹرول کر سکے۔‘‘ طالبان کے حوالے سے جنرل امان کا کہنا تھا، ’’طالبان جو ہو سکتا ہے کہ حتمی طور پر ناکامی سے ہی دو چار ہوں مگر فی الحال وہ افغان فورسز کے خلاف بہت سے جنگیں جیت رہے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ نیشنل سکیورٹی فورسز کو بہت زیادہ تکنیکی اور رسد کے حوالے مدد درکار ہے اس کے علاوہ انہیں تربیت اور اسلحہ بارود کی بھی ضرورت ہے اور فضائی حملوں کی بھی۔

افغانستان کے لوکل گورنمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے ایک اہلکار نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ’’ملک کے کُل 367 میں سے 40 اضلاع کا کنٹرول طالبان کے پاس ہے۔‘‘ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے مزید بتایا، ’’بعض جگہوں پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر کا کنٹرول تو افغان فورسز کے پاس ہے مگر کوئی بھی شخص اس شہر سے دو کلومیٹر باہر بھی نہیں جا سکتا۔‘‘ اس اہلکار نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔

کرائسز گروپ سے منسلک افغانستان کے حوالے سے معاملات کے سینیئر تجزیہ کار گریم اسمتھ Graeme Smith نے ڈی پی اے کو بتایا، ’’افغان ریاست اس وقت بہت سے مسائل میں گھری ہے۔ اس کا 90 فیصد بجٹ غیر ملکی امداد کی شکل میں آتا ہے۔ افغانستان میں جنگ کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے ملکی ریوینیو بڑھانے کے اہداف بری طرح ناکام ہو رہے ہیں۔ حکومتی خزانہ بظاہر خالی ہے۔ اس لیے یہ بات بہت واضح ہے کہ افغانستان کو ابھی لمبے عرصے تک امداد کی ضرورت ہے اس سے قبل کے یہ اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہو سکے۔‘‘