افغان مہاجرین وطن واپسی کے بجائے یورپ جانے کے خواہشمند
12 اگست 2016معاش اور بہتر سہولیات کی تلاش میں بالخصوص افغان مہاجرین کی نئی نسل یورپی ممالک کی جانب دیکھ رہی ہے جبکہ ایک نئے براعظم تک پہنچنے اور وہاں روزگار کے حصول کے لیے یہ افغان مہاجرین زندگی کی بازی بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کر رہے۔
پاکستان میں پشاور، اسلام آباد اور ملک کے دیگر علاقوں میں رہائش پذیر تعلیم یافتہ افغان نوجوان جنگ زدہ افغانستان واپسی کے بجائے مغربی ممالک جانے کے لیے کوشاں ہیں۔
تین دہائیوں سے جنگ اور خانہ جنگی کے شکار ملک افغانستان سے ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندے مغربی ممالک بالخصوص جرمنی، فرانس، بیلجیم، یونان اور ترکی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرا چکے ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد غیر قانونی راستوں سے ہوتے ہوئے ایسے یورپی ممالک پہنچی ہے، جہاں وہ سیاسی پناہ لینے کی کوشش میں ہیں۔
پشاور کے علاقے حیات آباد میں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد رہائش پذیر ہیں۔ یہاں ایسے افغان مہاجرین کی تعداد زیادہ ہے، جن کے رشتے دار مغربی ممالک پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
یورپ میں موجود ان مہاجرین کے رشتے دار انہیں ماہانہ خطیر رقوم ارسال کرتے، جس کی وجہ سے یہ افغان مہاجرین پشاور کے پوش علاقوں میں رہنے کے قابل ہوئے ہیں۔
’افغانستان میں قیام امن مشکل ہے‘
ڈی ڈبلیو نے چند ایک افغانوں سے بات کی، جو عید کے بعد واپس وطن کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ صوبہ ننگرہار سے تعلق رکھنے والے احمد یار کا کہنا تھا، ’’ میں یہاں (پاکستان) میں پیدا ہوا اور تعلیم بھی یہیں سے حاصل کی۔ افغانستان جانے کے بجائے کوشش ہے کہ کسی طرح یورپ چلا جاؤں۔ کافی سارے رشتہ دار جرمنی اور فرانس میں کام کرتے ہیں۔ امید ہے کہ میں بھی کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچ جاؤں گا۔‘‘
احمد یار کا مزید کہنا تھا کہ انہیں امید نہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہو سکے گا، ’’اب تک کی حکومتوں کو بیرون ممالک نے کھربوں ڈالر کی امداد دی ہے لیکن حکمران عام آدمی کی مشکلات حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں، وہ ہر وقت اپنے اقتدار کو بچانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ ہم پاکستان میں آرام سے رہ رہے تھے لیکن اب افغان حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے یہاں بھی مشکل پیش آنے لگی ہے۔‘‘
ان نوجوان افغان مہاجرین کے والدین بھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ سخت جان افغانوں کا مؤقف ہے کہ یورپ جاتے وقت تھوڑی سی تکلیف برداشت کر لی جانا چاہیے اور پھر بعد ازاں تو ساری زندگی آرام و سکون سے ہی گزرے گی۔
احمد یار کے گھر کے سربراہ یارمحمد خان کے خیالات کچھ یوں تھے، ’’یہاں کاروبار سمیٹ رہا ہوں۔ کچھ پیسے اپنے بیٹے کو بھی دے دوں گا تاکہ وہ یورپ چلا جائے، وہ اگر کامیاب ہوگیا تو ہمیں بھی سپورٹ کر سکے گا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں بے روزگار ہونے سے اچھا ہے کہ کسی یورپی ملک میں مزدوری کر لی جائے۔
جہاں افغانستان سے بڑی تعداد میں افغان باشندے یورپ جانے کے لیے پر تول رہے ہیں، وہاں پاکستان سے بھی کئی افغان مہاجرین یورپ جانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کر رہے ہیں۔
’یورپ پہنچنے کے طریقے‘
ڈوئچے ویلے نے پشاور میں مختلف ٹریول ایجنٹس سے یورپ جانے کے طریقہ کار کے بارے میں بات کی تو نام خفیہ رکھنے کی شرط پر ایک ٹریول ایجنٹ نے بتایا، ’’سب سے زیادہ لوگ ایران کے راستے ترکی اور وہاں سے یورپ پہنچتے ہیں۔ غیر قانونی طریقے سے جانے والوں کو انسانوں کے اسمگلر افغانستان اور پاکستان سے ایران کے راستے ترکی اور بعد میں یونان پہنچاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہر ملک کے الگ الگ ایجنٹ اور اسمگلر ہوتے ہیں۔ اس غیر قانونی سفر کے لیے فی کس بارہ سے پندرہ لاکھ روپے لیے جاتے ہیں۔‘‘
ٹریول ایجنٹس کے مطابق لوگوں کو فوٹو چینج ویزے کی مدد سے بھی اسمگل کیا جاتا ہے۔ مبینہ طور پر پہلے اصل کاغذات پر انہیں دبئی پہنچایا جاتا ہے اور وہاں سے فوٹو چینج کاغذات کے ذریعے مطلوبہ ملک پہنچا دیا جاتا ہے۔
ایک ٹریول ایجنٹ نے بتایا، ’’ کچھ اسمگلرز اصل کاغذات کے ذریعے پہلے لوگوں کو متحدہ عرب امارات پہنچاتے ہیں اور وہاں سے انہیں سینیگال اور موریطانیہ پہنچایا جاتا ہے، جہاں سے انہیں ائیر پورٹ پر ویزہ مل جاتا ہے اور یوں وہ لوگ اسپین اور یونان پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔‘‘
تاہم سب سے خطرناک راستہ ایران کے راستے ترکی کا ہے، جہاں اکثر لوگ ایرانی سکیورٹی اہلکاروں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ ٹریول ایجنٹس کے مطابق یورپ جانے کی خواہشمند افغانوں میں مڈل کلاس کے لوگوں کی اکثریت ہوتی ہے، جو زیادہ تر جرمنی پہنچنے کی کوشیش کرتے ہیں۔
پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی اور اثرات
پشاور میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے بھی اپنے عملے کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس ادارے کے مطابق اب پشاور کا عملہ روزانہ اٹھارہ سو افراد کی رجسٹریشن کی صلاحیت رکھتا ہے۔
افغان مہاجرین کے پاکستان سے جانے اور ان کے یورپ میں پناہ لینے کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر وقار حسین نے کہا، ’’یورپ کی امیگریشن پالیسی میں اب افغانوں کے لیے بہت ہی کم گنجائش ہے لیکن افغان مہاجرین پھر بھی غیر قانونی طریقے سے وہاں جانے کی کوشش کریں گے۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر وقار حسین نے مزید کہا کہ افغانستان میں لوگ پیسہ کما کر باہر لے جاتے ہیں لیکن اس اہم موڑ پر افغانستان کو ان ہنر مند لوگوں کی ضرورت ہے، ’’چند سال ان کے لیے مشکل ضرور ہوں گے لیکن اگر اب یہ اپنے وطن کو سنوارنے کی کوشش کریں گے تو وقت کے ساتھ ساتھ افغانستان کی معیشت میں استحکام بھی آ سکتا ہے۔‘‘
پروفیسر ڈاکٹر وقار حسین کے مطابق افغان مہاجرین کی واپسی سے پاکستان پر دوہرے اثرات مرتب ہوں گے، ’’ہاؤسنگ سیکٹر میں نقصان جبکہ فوڈ اور انفرسٹرکچر کے اخراجات میں کمی آئے گی۔‘‘