1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان کا موسم بہار میں ’الخندق‘ کا اعلان

25 اپریل 2018

افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں نے ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی موسم بہار میں افغان اور امریکی فورسز پر مسلح حملوں کی نئی لہر کا اعلان کر دیا ہے۔ طالبان کے مطابق اس نئی عسکری مہم کو ’آپریشن الخندق‘ کا نام دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2wdg1
تصویر: Reuters/O. Sobhani

افغان دارالحکومت کابل سے بدھ پچیس اپریل کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ہندو کش کی اس ریاست میں امریکی اور امریکا کے اتحادی ممالک کے دستوں کی موجودگی کی مخالفت کرنے اور افغان فورسز کے ساتھ ساتھ حکومتی اہداف کو بھی خونریز کارروائیوں کا نشانہ بنانے والے طالبان کی طرف سے ہر سال یہ کوشش کی جاتی ہے کہ وہ موسم سرما ختم ہوتے ہی، موسم بہار میں اپنی مسلح کارروائیوں میں تیزی لے آئیں۔

Afghanistan Kabul Friedens-Konferenz
افغان صدر اشرف غنیتصویر: Reuters/O. Sobhani

اس مرتبہ بھی طالبان نے ایسا ہی ایک اعلان کر دیا ہے، جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اب تک کے عمومی تاثر کے برعکس نہ صرف یہ مزاحمت کار کابل میں صدر اشرف غنی کی حکومت کی طرف سے امن مذاکرات کی پیشکش قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں بلکہ ساتھ ہی انہوں نے یہ عہد بھی کیا ہے کہ وہ افغانستان میں امریکی دستوں کو پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ اپنی کارروائیوں کا ہدف بنانے کی کوشش کریں گے۔ روئٹرز نے لکھا ہے کہ طالبان نے موسم بہار کے لیے اپنی اس مزاحمتی مہم کو ’آپریشن الخندق‘ کا جو نام دیا ہے، وہ اپنے اصطلاحی سیاق و سباق کے حوالے سے بڑا سوچا سمجھا بھی ہے اور ایک نئے جنگی دور کی ابتدا کی علامت بھی۔

اس کی وجہ یہ تاریخی حوالہ ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں نے اپنی اس مسلح مہم کو جنگ خندق سے منسوب کیا ہے۔ جنگ خندق اسلام کے شروع کے دور کی وہ جنگ تھی، جس میں پیغمبر اسلام کی قیادت میں مدینہ کی حفاظت کے لیے ایک خندق کھودی گئی تھی۔

کابل کے الیکشن سنٹر میں خودکش حملہ، ہلاکتیں 48 تک پہنچ گئیں

افغانستان نے پانچ پاکستانی فوجیوں کی نعشیں واپس کر دیں

جہاں تک افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو عملی طور پر آگے بڑھاتے ہوئے امن بات چیت کے ممکنہ آغاز کا تعلق ہے، تو دو اہم حقائق ایسے ہیں، جو یہ واضح کر دیتے ہیں کہ ہندو کش کی اس ریاست میں آئندہ دنوں میں سیاسی اور عسکری صورت حال ممکنہ طور پر کیا رخ اختیار کر سکتی ہے۔

روئٹرز کے مطابق اس سال کے آغاز سے لے کر اب تک طالبان شدت پسند ملک کے مختلف حصوں کے ساتھ ساتھ دارالحکومت کابل میں بھی اہم اہداف پر ایسے بڑے حملے کر چکے ہیں، جن میں سینکروں افراد ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف دو ماہ قبل فروری میں صدر اشرف غنی نے طالبان کو یہ پیشکش بھی کی تھی کہ وہ کسی بھی طرح کی پیشگی شرائط کے بغیر طالبان کے ساتھ امن مذاکرات پر تیار ہیں۔

پاکستان پر افغان سرحد کے پار سے حملہ: امن کیسے قائم ہو گا؟

افغانستان میں پارلیمانی انتخابات، ووٹروں کی رجسٹریشن شروع

ایسے میں طالبان کی قیادت کی طرف سے ’الخندق‘ کا اعلان نہ صرف صدر غنی کی مذاکراتی پیشکش کا منفی جواب ہے بلکہ طالبان کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں یہ بھی کہا گہا ہے کہ کابل حکومت کی امن کوششیں اور پیشکشیں بھی ایک ’سازش‘ ہیں۔

طالبان نے اپنے اس بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ اشرف غنی کی مذاکرات کی اس پیشکش کا مقصد ملک پر ’ناجائز غیر ملکی قبضے‘ سے عوامی توجہ ہٹانا ہے۔ اسی بیان میں طالبان نے یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ افغانستان میں ’امریکا جنگ کے خاتمے کے اپنے ارادوں میں سنجیدہ یا مخلص نہیں ہے‘۔

طالبان نے صوبہ غزنی کے اہم ضلع پر قبضہ کر لیا، گورنر ہلاک

افغانستان میں داعش کا اعلیٰ کمانڈر امریکی فضائی حملے میں ہلاک

طالبان کے اس نئے اعلان سے ان خطرات کی نشاندہی بھی ہوتی ہے، جن کا اس سال اکتوبر میں ملکی پارلیمان اور ضلعی کونسلوں کے انتخابات کے عمل کو سامنا ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں طالبان مسلح حملوں کے ساتھ پہلے ہی یہ کوششیں بھی کر رہے ہیں کہ وہ ان انتخابات کے لیے ووٹروں کے طور پر افغان شہریوں کے اندراج کے عمل میں زیادہ سے زیادہ رکاوٹیں کھڑی کریں۔

م م /  ش ح / روئٹرز