1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’افغان طالبان اگلے ماہ ماسکو میں مذاکرات کا حصہ ہوں گے‘

21 اگست 2018

چند روز قبل طالبان نے ایک غیر معمولی سفارتی قدم اٹھاتے ہوئے ازبکستان حکومت کے ساتھ اعلیٰ سطحی مذاکرات کیے تھے۔ اب روس نے بھی ان کو ماسکو آنے کی دعوت دے دی ہے، جبکہ طالبان خطے کے کئی دیگر ممالک کے ساتھ بھی رابطوں میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/33VyN
Sergei Wiktorowitsch Lawrow
تصویر: Getty Images/AFP/J. Makovec

روس کی انٹرفیکس نیوز ایجنسی نے منگل اکیس اگست کو ملکی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف کے حوالے سے بتایا کہ افغان طالبان نے چار ستمبر کو ماسکو میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کی دعوت قبول کر لی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان اور روس کے مابین ہونے والے یہ حالیہ رابطے غیرمعمولی ہیں۔ امریکی حکام ماضی میں ماسکو حکومت پر افغان طالبان کو ہتھیار فراہم کرنے جیسے الزامات عائد کر چکے ہیں۔

روس طالبان کو مفت ڈیزل فراہم کر رہا ہے، رپورٹ

روس ابھی تک طالبان کو ایک دہشت گرد گروہ تصور کرتا ہے لیکن روس میں تعینات افغان سفیر عبدالقیوم کوچائی کے مطابق ماسکو حکومت افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے پریشان ہے اور اب طالبان کی مدد سے اس شدت پسند تنظیم کو شکست دینا چاہتی ہے۔ دوسری طرف ماسکو حکومت نے افغان سفیر کے اس بیان کو مسترد کر دیا ہے۔ انٹرفیکس نے روسی وزیر خارجہ کے حوالے سے بتایا کہ روس کے طالبان سے مذاکرات کا مقصد افغانستان میں روسی شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانا اور طالبان کو امن عمل کے لیے تیار کرنا ہے۔

Afghanistan - Taliban Kämpfer
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Khan

تجزیہ کاروں کے مطابق علاقائی سطح پر طالبان کے سیاسی اثر و رسوخ میں اضافے اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مذاکرات سے بطور ایک جنگی فریق طالبان مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ جمعے کے روز طالبان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے ازبکستان کا اپنا چار روزہ دورہ مکمل کر لیا تھا۔ اس دورے کے دوران طالبان رہنماؤں نے ازبکستان کے وزیر خارجہ عبدالعزیز کامیلوف سے بھی ملاقات کی تھی۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق یہ مذاکرات ازبک صدر شوکت میرزیوئیف کے ایما پر ہوئے تھے۔

وسطی ایشیائی ریاستیں طالبان کے ساتھ امن کیوں چاہتی ہیں؟

خطے کے ان ممالک کے ساتھ طالبان کے مذاکرات کا سلسلہ نیا ہے جبکہ طالبان کے قطر میں موجود سیاسی رہنما چینی، پاکستانی اور ایرانی حکام کے ساتھ پہلے ہی متعدد بار ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ حال ہی میں امریکی حکام نے بھی طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کا عندیہ دیا تھا جبکہ امریکا افغانستان میں طالبان کے خلاف اپنے عسکری حملوں میں بھی کمی لا چکا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان عسکریت پسند ایک طرف تو افغان سکیورٹی دستوں پر پے در پے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور دوسری طرف ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں اضافہ بھی ان کی پوزیشن کو مضبوط بنا رہا ہے۔

یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس میں ایشیا پروگرام کے نائب صدر اینڈریو ویلڈر کے مطابق اگر ماسکو حکومت امن کے لیے ’مثبت کردار‘ ادا کرتی ہے، تو واشنگٹن اس کا خیرمقدم کرے گا۔ تاہم ان کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’بیرونی حکومتوں کی طرف سے طالبان کے ساتھ اعلیٰ سطحی مذاکرات میں اگر افغان حکومت کو شامل نہیں کیا جاتا، تو یہ خطرہ موجود رہے گا کہ طالبان کو بہت زیادہ اہمیت اور اتھارٹی دی جا رہی ہے۔‘‘

ا ا / م م ( ڈی پی اے، اے پی، اے ایف پی)