1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان صدر کی طالبان کو مذاکرات کی پیش کش، کیا کامیاب ہو گی؟

عبدالستار، اسلام آباد
2 مارچ 2018

افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے افغان طالبان کو مذاکرات کی دعوت اور ان مذاکرات کی چین کی طرف سے حمایت پر پاکستان میں کئی حلقے اب یہ خیال کر رہے ہیں کہ اس جنگ زدہ ملک میں امن کی کوئی راہ ہموار ہوجائے گی۔

https://p.dw.com/p/2tbqN
Afghanistan Ashraf Ghani
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar

افغان صدر نے کابل میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان طالبان کو مذاکرات کی دعوت تھی اور پاکستان کو بھی ایک نیا دور شروع کرنے کی پیش کش کی تھی۔ کئی سیاسی مبصرین کا یہ خیا ل ہے کہ خطے کے ممالک تو افغانستان میں امن چاہتے ہیں لیکن امریکا کے ارادوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

اس پیش کش پر تبصرے کرتے ہوئے ممتاز دفاعی مبصر جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’افغان طالبان نے روس، چین، ترکی اور ایران سمیت خطے کے کئی ممالک سے رابطے رکھے ہوئے ہیں۔ خطے کے ممالک یہ چاہتے ہیں کہ افغانستا ن میں امن ہو، تاکہ یہاں معاشی ترقی کی راہ ہموار ہو سکے لیکن ماضی میں بھی امریکا نے امن کی کوششوں کو نقصان پہنچایا۔ جب ہم نے ہم مذاکرات کی کوشش کی تو امریکا نے انہیں نقصان پہنچایا اور اب بھی اگر مذاکرات شروع ہوئے تو امریکا اس میں رکاوٹیں کھڑی کرے گا۔‘‘افغانستان: قیام امن کے لیے کیا ایک اور بون اجلاس ضروری ہے؟

افغان صدر کا خطاب، بدلہ لینے کا اعلان

ُان کا کہنا تھا کہ امریکا کے ارادے یہاں سے جانے کے نہیں ہیں بلکہ وہ اس خطے میں قیام کرنا چاہتا ہے۔ ’’سیدھی سی بات ہے کہ امریکا کے لئے یہاں رکنا مشکل ہوجائے گا اگر افغانستان مین امن ہوگیا۔ بگرام کی ایئر بیس انہوں نے ایسے ہی تو نہیں بنائی۔ اب انہوں نے ایک طرح سے چین اور روس کو اپنا دشمن قرار دے دیا ہے۔ ایران سے بھی ان کے معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ تو ایسی صورت مین امریکہ کیوں مزکرات چاہے گا۔ جہاں تک پاکستان کو تعلق ہے تو اسلام آباد نے ہمیشہ امن مذاکرات کی حمایت کی ہے لیکن اس کے لئے تمام فریقوں کی طرف سے اخلاص کا مظاہر ہ ضروری ہے۔‘‘

Afghanistan Taliban-Gruppe unterstüzt TAPI-Projekt
افغان صدر کی جانب سے قیام امن کے لیے افغان طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی گئی ہےتصویر: DW/S. Tanha

لیکن تجزیہ نگار احسن رضا کے خیا ل میں ان مذاکرات کو امریکی حمایت بھی حاصل ہے۔ ’’امریکا کی نظر میں طالبان دہشت گر د ہیں تو وہ براہ راست ان سے مذاکرات کرنے سے کترائے گا۔ تاہم اشرف غنی نے یہ بات امریکہ سے گرین سگنل ملنے کے بعد ہی کی ہوگی۔ چین کی افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری ہے۔ پاکستان پر بھی بیجنگ کا بہت اثرورسوخ ہے۔ تو ایسی صورت میں یہ ممکن ہے کہ مذاکرات شروع ہوجائیں اور بعد میں کسی سطح پرامریکا بھی ان مذاکرات کا حصہ بن جائے گا۔‘‘

دنیا میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ، ہلاکتوں میں کمی

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر ملک ایوب کے خیال میں امن کے بغیر خطے کی ترقی ممکن نہیں۔ ’’جس طرح چین کے پورے خطے میں سرمایہ کاری کی ہے، اس کا مفاد یہی ہے کہ خطے میں امن و استحکام ہو ورنہ بیجنگ کی سرمایہ کاری کو شدید نقصان ہوگا۔‘‘

  ملک ایوب نے مزید کہا کہ چین کو اس حوالے سے مخلصانہ کوششیں کرنی چاہیں اور پاکستان و بھارت کو اپنے اختلافات بھلا کر افغان امن کے لئے کام کرنا چاہیے ورنہ دہشت گدری کا ناسور نہ صرف پاکستان، افغانستان اور بھارت کو نقصان پہنچائے گا بلکہ یہ مہذب دنیا کے لئے بھی بہت بڑا خطرہ ثابت ہوگا۔