’افغان جنگ کے مثبت نتائج ایک دہائی بعد‘
24 نومبر 2011لندن میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران برطانوی جنرل نے تسلیم کیا کہ اس جنگ میں منصوبہ بندی سے متعلق بعض کوتاہیاں سر زد ہوئی ہیں تاہم اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ اس جنگ کو مثبت قرار دے گی۔ انہوں نے اس سلسلے میں سرسری طور پر 2018ء، 2019ء اور 2020ء کے سالوں کا حوالہ دیا۔ برطانوی جنرل نے تسلیم کیا کہ افغان جنگ کے دوران 2003ء میں عراق کا محاذ کھول کر سیاسی پالیسیاں بنانے والوں اور عسکری قیادت نے افغانستان کو نظر انداز کرنے کی غلطی کی۔
برطانوی جنرل کا کہنا تھا، ’’ مجھے قوی امید ہے کہ ہم سب اگلے دس سال میں اس بات پر متفق ہوں گے یہ جنگ ناگزیر تھی اور ہم اس سے سرخرو ہوکر نکلے ہیں۔‘‘ بہت سے دیگر ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی افغان جنگ کے لیے عوامی حمایت میں نمایاں کمی دیکھی جارہی ہے۔ جنرل رچررڈز گزشتہ ماہ عوامی سطح پر یہ بھی تسلیم کرچکے ہیں کہ برطانوی شہریوں میں افغان جنگ کے لیے حمایت کم تر ہو رہی ہے اور انہیں ’رائے کی جنگ‘ میں شکست کا سامنا ہے۔
برطانوی ذرائع ابلاغ کے مطابق افغانستان میں برطانوی فوجیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے سبب برٹش شہریوں میں اس جنگ کی حمایت کا گراف گر رہا ہے۔ افغانستان پر 2001ء میں حملے کے بعد سے اب تک قریب 389 برٹش فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ برطانوی حکومت اگلے سال افغانستان سے 500 فوجی واپس بلا لے گی اور یوں وہاں 9000 برٹش فوجی رہ جائیں گے۔
برطانوی رائے عامہ میں تبدیلی پر ایسی اطلاعات بھی اثر انداز ہورہی ہیں، جن کے مطابق برطانوی فوجیوں کی تعداد اور انہیں رسد کی فراہمی کے معاملات کو درست انداز میں نہیں نمٹایا جا رہا۔ برطانوی جنرل کا کہنا ہے کہ افغان جنگ کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں بین الاقوامی سطح پر افغانستان سے کوئی بھی دہشت گردانہ حملہ نہیں ہوا۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ 2014ء میں افغانستان سے غیر ملکی فوج کے انخلاء کے بعد بھی ان کا ملک افغانستان کی مدد کرتا رہے گا۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عصمت جبیں