1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان جنگ، امریکی حکومت نے عوام سے حقائق چھپائے

10 دسمبر 2019

ایک امریکی اخبار کے مطابق امریکی عوام کو وائٹ ہاؤس میں آنے والی تین حکومتوں نے حقائق سے محروم رکھا۔ اس تناظر میں ہزاروں دستاویزات کی روشنی میں ایک خصوصی رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3UXWj
Anschlag in Afghanistan Nähe der Bagram Air Base
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Rahmat Gul

معتبر امریکی اخبار پوسٹ واشنگٹن پوسٹ کو دستیاب ہونے والی ہزاروں دستاویزات کی روشنی میں واضح کیا گیا کہ افغانستان میں جاری جنگی صورت حال کے بارے میں حکومت نے امریکی عوام کو حقائق سے دور رکھا اور سچ کو چھپایا۔ ان دستاویزات سے امریکی حکومتوں کے افغان جنگ میں 'مایوس کن کردار‘ کے حوالے سے بھی انکشافات ہوئے ہیں۔

اخبار کو موصولہ دستاویزات میں افغان جنگ کے حوالے سے مسلسل بدلتی حکمت عملی، مؤثر افغان فوج کی تشکیل کی کوششیں، طالبان کو شکست دینے میں ناکامی اور کابل حکومت میں انسداد بدعنوانی بارے بھی معلومات دستیاب ہوئی ہیں۔ ان دستاویزات میں سابقہ ادوار کے کئی اہم شخصیات کے انٹرویوز سے بھی اصل صورت حال سامنے آئی ہے۔

Afghanistan Heart | Artillerie-Training der Armee durch US-Army
ایک امریکی اخبار کے مطابق امریکی عوام کو وائٹ ہاؤس میں آنے والی تین حکومتوں نے حقائق سے محروم رکھاتصویر: DW/S. Tanha

انٹرویوز کا سلسلہ امریکی حکومت کے اسپیشل انسپیکٹر جنرل برائے تعمیر نو افغانستان کے ایک منصوبے کا حصہ تھے۔ یہ دفتر عام طور پر سیگار (SIGAR) کے نام سے مشہور ہے۔ اس دفتر نے افغان جنگ کے تناظر میں اب تک سات رپورٹوں کا اجرا کیا ہے۔ ایسی ہی ایک رپورٹ میں وائٹ ہاؤس میں افغان جنگ کے حوالے سے تعینات تھری اسٹار جنرل ڈوگلس لیوٹ کا انٹرویو بھی تھا، جس میں انہوں نے واضح کیا کہ اس جنگ میں افغانستان کے بارے میں بنیادی معلومات اور ضروریات کو نظرانداز کیا گیا۔

سیگار دفتر کی سات رپورٹوں میں چار سو سے زائد انٹرویوز شامل ہیں۔ کئی اور انٹرویوز کو اگلی رپورٹوں میں شامل  کیا جائے گا۔ واشنگٹن پوسٹ نے اصل انٹرویوز (بغیر قطع وبرید) کے بھی حاصل کیے ہیں۔ ان کا حصول اخبار نے فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ اور عدالتی شنوائی کے تحت کیا گیا۔

Afghanistan Heart | Artillerie-Training der Armee durch US-Army
مریکی اخبار پوسٹ واشنگٹن پوسٹ کو افغان جنگ کے بارے میں ہزاروں دستاویزات حاصل ہوئی ہیںتصویر: DW/S. Tanha

ان دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقریباً اٹھارہ برسوں سے جاری اس جنگی مہم میں امریکی حکومت جنگی حالات کی تلخ سچائی کو غلط رنگ میں پیش کرتی رہی ہے۔ سن 2013 میں امریکی فوج کے ایک افسر کرنل باب کرالی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہر ایک نکتے کو غلط رنگ میں عوام کے سامنے بہتر انداز میں پیش کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق افغان جنگ کے بارے جو سروے رپورٹ مرتب کی گئیں، وہ بھی ناقابل اعتبار تھیں۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے تناظر میں امریکی فوج کے صدر دفتر نے پیر نو دسمبر کو ایک بیان میں کہا کہ کانگریس اور عوام سے حقائق چھپانے کے پیچھے کوئی بری نیت نہیں تھی۔ بیان کے مطابق دفاعی اہلکار مسلسل افغان جنگ کے حوالے سے درپیش چیلنجز اور پینٹاگون کی کاوشوں کو بیان کرتے رہے ہیں۔ پینٹاگون کے ترجمان کے مطابق دفتر سیگار کی دستاویزات میں شامل انٹرویوز حقیقت میں انٹرویو دینے والے افسران کی سمجھ بوجھ اور سوچ کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔ ترجمان کے مطابق ماضی میں بھی فوجی ادارہ ایسے بیانات سے اپنی عملی اقدامات کا تقابلی جائزہ لیتا رہا ہے۔

ع ح ⁄ ع ا (اے پی)

جنگ سے متاثرہ افغان بچے