1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان تنازعے کا يورپی مہاجرين کے بحران سے کيا تعلق ہے؟

عاصم سلیم Wesley Dockery
8 اپریل 2018

يورپ ميں سياسی پناہ کی درخواستيں دينے والوں ميں شامی و عراقی شہريوں کے بعد پچھلے سال افغان شہری تيسرے نمبر پر رہے۔ افغان تارکين وطن نے يورپی يونين کے رکن ممالک ميں پناہ کی چواليس ہزار سے زائد درخواستيں جمع کرائيں۔

https://p.dw.com/p/2vgQ1
Griechenland - Afghanische Aktivisten aus Deutschland und den Niederlanden feiern den 8. März mit Flüchtlingen
تصویر: DW/S. Nabil

افغانستان کی صورت حال بھی شام اور عراق سے بہت زيادہ مختلف نہيں۔ وہاں مسلمان انتہا پسند گروہ سرگرم ہيں اور سالہا سال سے جنگ جاری ہے۔ وسطی ايشيا کے اس ملک ميں سلامتی کی صورتحال کافی پيچيدہ ہے۔ ليکن وہ کون سے مسائل ہيں جو افغان باشندوں کو يورپ ہجرت پر مجبور کر رہے ہيں؟

افغان شہريوں کی يورپ ہجرت کی ايک بڑی وجہ امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 ميں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی بعد جنگجو تنظيم طالبان کے خلاف افغانستان ميں شروع کی جانے والی جنگ ہے، جو آج بھی جاری ہے۔ طالبان نے نيو يارک ميں حملوں ميں ملوث دہشت گرد نيٹ ورک القاعدہ سے وابستہ جہاديوں کو پناہ فراہم کی اور يوں ان کے خلاف کارروائی شروع کی گئی۔ فوجی مہم کی مدد سے امريکا القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کے علاوہ طالبان کا بھی صفايا کرنا چاہتا تھا۔

طالبان دراصل 1996ء سے کابل حکومت کا حصہ تھے۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار ميں شريعہ پر مبنی قوانين نافذ کيے۔ پاکستان اور سعودی عرب اس وقت وہ دو واحد ممالک تھے جنہوں نے طالبان کی حکومت کو تسليم کيا۔ بعد ازاں سن 2001 ميں ان کی حکومت گرنے کے بعد حامد کرزئی افغان صدر بنے اور پھر ہی کہيں جا کر مغربی ممالک کے ساتھ کابل کے تعلقات بحال ہوئے۔

يہ حقيقت ہے کہ سترہ برس سے جاری جنگ کے سبب افغانستان ميں طالبان کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور اب وہ حکومت کا حصہ بھی نہيں ليکن يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ ملک کے کئی حصوں ميں آج بھی ان کا اثرورسوخ برقرار ہے۔ اس انتہا پسند تنظيم نے افغان حکومت اور اس کی غير ملکی اتحادی افواج کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے اور ان پر حملے معمول کی بات ہيں۔ ايسے ہی حملوں کے سبب افغانستان ميں سلامتی کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ دريں اثناء سياسی و اقتصادی عدم استحکام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، مشرق وسطی ميں سرگرم دہشت گرد گروہ اسلامک اسٹيٹ بھی پچھلے ايک دو سالوں ميں قوت پکڑتا جا رہا ہے۔ ايسی شدت پسند تنظيموں کے سبب سن 2016 اب تک افغانستان کا سب سے خونريز سال ثابت ہوا، جب 3,498 شہری ہلاک اور 7,920 زخمی ہوئے۔

علاوہ ازيں سلامتی کی ابتر صورتحال کے علاوہ افغانستان ميں نسلی گروہوں کے خلاف تشدد بھی عام ہے۔ ہزارہ شيعہ کميونٹی اکثريتی طور پر ملک کے وسطی حصوں ميں مقيم ہے۔ اس مذہبی اقليتی گروپ کو طالبان کی جانب سے اکثر حملوں کا نشانہ بنايا جاتا ہے۔ ہزارہ کميونٹی کے علاوہ تاجک برادری کے ارکان کو بھی طالبان کی برہمی کا سامنا رہتا ہے کيونکہ ماضی ميں اس کميونٹی نے سوويت يونين کی حمايت کی تھی۔ افغان ہندو اور مسيحی برادری وہ ديگر مذہبی اقليتيں ہيں، جنہيں افغانستان ميں پر تشدد حملوں کا سامنا رہتا ہے۔