1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسکول کے طالب علم کی کاوش بھارت بھر میں کیسے پھیلی

عاطف توقیر6 اپریل 2016

بچوں سے مشقت کے خلاف ممبئی کے ایک اسکول کے ایک طالب علم نے ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا تھا، جو بعد میں شہر بھر پھیل گئی اور اب یہی مہم سوشل میڈیا کے ذریعے بھارت بھر میں مختلف کمیونیٹیز کو اس مسئلے کی سنجیدگی سمجھا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1IQ3a
Indien Kinderarbeit Mülldeponie
تصویر: imago/imagebroker

17 سالہ کُونال بھرگاوا ممبئی کے امیریکن اسکول کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے اپنی جماعت میں بچوں سے مشقت لینے کے خلاف ایک پروجیکٹ پیش کیا۔ اس کام کے لیے انہوں نے سلام بالک ٹرسٹ سے مواد حاصل کیا۔ یہ ادارہ گلی کوچوں میں بچوں کی مزدوری کے انسداد کے لیے کام کرتا ہے۔

ممبئی کی پولیس اس پروجیکٹ سے اس حد تک متاثر ہوئی کہ اسے مہم کی شکل دے کر رواں برس کے آغاز پر پوسٹروں اور بل بورڈز کی صورت میں شہر بھر میں متعارف کروا دیا گیا۔

رواں ہفتے سوشل میڈیا پر شہری حقوق کے ایک پیلٹ فارم لوکل سرکلز نے اسی پروجیکٹ کو ایک مباحثے کی صورت میں متعارف کروا دیا ہے۔ اس پلیٹ فارم سے وابستہ ارکان کی تعداد ایک ملین سے زائد ہے اور چائلڈ لیبر یا بچوں کی مشقت کے موضوع پر بحث کے ذریعے اس مسئلے کی سنگینی واضح کرتے ہوئے اس پر اپنے ارکان کی رائے طلب کی گئی۔

Indien Kinderarbeit
لاکھوں بچے چائلڈ لیبر کی وجہ سے حصولِ تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیںتصویر: imago/imagebroker

بھرگاوا کے مطابق، ’’چائلڈ لیبر ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کی بابت میں بہت سوچتا ہوں۔ وہ بچے میری ہی عمر کے ہوں گے، مجھ سے چھوٹے بھی ہوں گے، مگر وہ میری طرح اسکول جانے کی بجائے کام کاج کرنے پر مجبور ہیں۔‘‘

تھومسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات چیت کرتے ہوئے کُونال بھرگاوا نے مزید کہا، ’’یہ سب کچھ ہم ہر روز دیکھتے ہیں۔ اس لیے کمیونیٹیز کو اس معاملے میں شامل کر کے ہم چائلڈ لیبر کے مسئلے سے بہتر انداز سے نمٹ سکتے ہیں۔‘‘

بھارت میں پانچ تا 17 برس کی عمروں کے قریب ستاون لاکھ بچے اسکول جانے کی بجائے کام کرنے پر جبری مشقت کا سامنا کرتے ہیں، جب کہ عالمی سطح پر یہ تعداد 168 ملین ہے۔

بھارت میں چائلڈ لیبر کے شکار ان بچوں میں سے زیادہ تر زراعت کے شعبے سے منسلک ہیں، جس میں کپاس، گنے اور چاول کی فصلوں کٹائی جیسے کام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک چوتھائی تعداد ان بچوں کی ہے، جو مختلف کارخانوں میں کپڑوں، قالینوں اور ماچسوں کی تیاری میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ بچے ریستورانوں، ہوٹلوں اور متوسط طبقے کے گھروں میں برتن مانجتے، سبزیاں کاٹتے اور صفائی کرتےنظر آتے ہیں۔

بھارتی قانون کے تحت بچے اپنے اسکول کے وقت کے علاوہ اپنی فیملی کی مالی مدد کے لیے کچھ گھنٹے کام کر سکتے ہیںَ بہ شرط یہ کہ ان کی تعلیم متاثر نہ ہو۔

لوکل سرکلز گروپ سے وابستہ افراد اب مزدور بچوں کی تصاویر، رپورٹس اور دیگر معلومات شیئر کر رہے ہیں، تاکہ پولیس اور غیر سرکاری تنظیموں کو ان بچوں کے اس جھنجھٹ سے نکالنے میں آسانی ہو۔