1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسکرٹ پہننے پر قید کی سزا

کشور مصطفیٰ8 جولائی 2015

مراکش میں اسکرٹ پہننے پر دو نوجوان خواتین کو دو سال تک کی قید ہو سکتی ہے جبکہ جرمنی کے ایک اسکول میں لڑکیوں کے ہاٹ پینٹس یا شارٹس پہننے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1FvA7
تصویر: GUILLERMO LEGARIA/AFP/Getty Images

ایک طالبہ اور ایک ہیئرڈریسر جنوبی مراکش کے ایک ساحلی شہر اکادیر کی ایک مارکیٹ میں کیا نکلیں کہ ملک بھر میں ایک سیاسی بحث چھڑ گئی اور انہیں عدالت میں طلب کر لیا گیا ۔ وجہ یہ تھی کہ ان دونوں نوجوان لڑکیوں نے اسکرٹ پہن رکھی تھی جو ’مردوں کو لُبھانے‘ کا سبب بن سکتی تھی۔ اسکرٹ میں ملبوس یہ دونوں لڑکیاں جس بازار سے گزر رہی تھیں وہاں مردوں نے اُن پر آوازیں کسنا شروع کیں اور انہیں اشتعال انگیز لباس پہننے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ معاملہ مراکش کے سلامتی کے ادارے تک پہنچا۔ پولیس وقوعہ تک پہنچی اور اُس نے دونوں خواتین کو گرفتار کر لیا۔

’نری بے حیائی‘

یہ واقعہ ہے 16 جون کا یعنی مسلمانوں کے مقدس مہنے رمضان کا۔ شاید یہی وجہ بنی ان خواتین کی گرفتاری اور انہیں عدالت کےکٹہرے میں پیش ہونے کی۔ انیس اور تیئیس سالہ ان نوجوان خواتین کے خلاف جو فرد جرم عائد کی گئی ہے اُس کی وجہ ’ تنگ لباس پہننا‘ بتائی گئی ہے، جو مراکش کے قوانین کے تحت ’بے حیائی‘ کے زمرے میں آتی ہے اور قدامت پسند مسلم بادشاہت مراکش کے کرمنل کوڈ یا ضابطہ فوجداری کے تحت تنگ لباس پہننے کر گھروں سے نکلنے کا عمل ’ سرے عام فحاشی‘ ہے۔ اس کی سزا دو ماہ سے لے کر دو سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔

Marokko Protest gegen Anklage zweier Frauen mit enger Kleidung
مراکش میں اسکرٹ پہننے والی نوجوان خواتین پر مقدمے کے خلاف عوامی احتجاجتصویر: picture-alliance/dpa/A. Senna

انصاف کے خلاف مظاہرے

’سرے عام فحاشی‘ کے جرم کی مرتکب ان دونوں نوجوان خواتین کے خلاف مقدمے کی عدالتی کارروائی گزشتۃ پیر کو شروع ہوئی۔ اس موقع پر مراکش کے دارالحکومت رباط کی سڑکوں پر سینکڑوں مراکشی خواتین اور مردوں نے مظاہرے کیے۔ مشتعل مظاہرین انصاف کے ادارے کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ اگلے روز کاسابلانکا اور اکادیر میں بھی احتجاجی ریلی کی کال دی گئی۔

مراکش کے آئین کی روشنی میں مرد اور عورت مساوی ہیں۔ یہ شمالی افریقی ملک مغربی دنیا سے اپنی جغرافیا‍ئی قربت پر خوشی محسوس کرتا ہے۔ اس ملک میں جنسیت کا موضوع شجر ممنوع ہے اور اس کا آغاز ننگی جلد ہی سے ہو جاتا ہے۔ وہاں ہم جنس پرستی، شادی سے پہلے جنسی تعلق اور اسقاط حمل جیسے موضوعات کے بارے میں عوامی سطح پر مکمل خاموشی پائی جاتی ہے۔

Symbolbild Hotpants
ایک جرمن اسکول میں لڑکیوں کے اسکرٹس پہننے پر پابندیتصویر: picture-alliance/dpa/O. Spata

شجر ممنوعہ پر عوامی بحث

مراکش کی سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے والے انسانی حقوق کے سرگرم مرد و خواتین نے اس ممنوعہ موضوع کو سوشل نیٹ ورک پر عام کر کہ اس بارے میں عوامی بحث چھیڑ دی ہے۔

ٹوئٹر پر ایک ہی پیغام گردش کر رہا ہے، ’کسی لباس کو زیب تن کرنا کوئی قابل سزا جرم نہیں ہے‘۔ اُدھر مراکشی خواتین شارٹس میں ملبوس ہو کر اپنی تصاویر بنوا کر سوشل میڈیا پر شائع کر رہی ہیں۔

جرمنی ہاٹ پینٹس پر پابندی

عورتوں کا تنگ اور چست لباس پہننا محض مسلم معاشروں میں ہی اشتعال انگیزی کا باعث نہیں بلکہ مغرب کی آزاد جمہوری ریاست جرمنی میں بھی اس کی ایک مثال سامنے پئی ہے۔ حال ہی میں جرمن صوبے بادن وورٹمبرگ کے ایک سیکنڈری اسکول میں ایک طالبہ کے ہاٹ پینٹس پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اسکول انتظامیہ نے اس طالبہ کے والدین کو باقاعدہ خط بھیجا جس میں اُن کی بیٹی کے ہاٹ پینٹس پہننے پراعترض کیا گیا اورانہیں مطلع کیا گیا کہ ہاٹ پینٹس پہننے پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ اس کے بعد سے جرمنی میں بھی خواتین کے لباس پر پابندی کا موضوع سوشل میڈیا کی سرگرمیوں میں مزید اضافے کا سبب بن گیا ہے۔