1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہسعودی عرب

سعودی خواتین کی فوج میں بھرتی

1 مارچ 2021

سعودی عرب میں حال ہی میں خواتین کو فوج میں خدمات کے لیے درخواست دینے کی اجازت دی گئی ہے۔ فیصلہ بنیادی طور پر داخلی سیاسی وجوہات کی بناء پر کیا گیا ہے، لیکن یہ خارجہ پالیسی کے تناظر میں بھی ایک اہم اشارہ ہے۔

https://p.dw.com/p/3q3jO
Soldaten der saudischen Armee Saudi Arabien Soldaten Symbolbild
تصویر: Ali Hassan/EPA/dpa/picture alliance

 

سعودی عرب میں فوج میں بھرتی کی خواہشمند خواتین کے لیے چند اہم شرائط طے کر دی گئی ہیں۔ با الفاظ دیگر مخصوص معیارات پر پورا اترنے والی سعودی خواتین ہی فوج میں داخل ہونے کی اہل ہو سکتی ہیں۔ سب سے پہلی شرط یہ کہ ان کا قد ایک میٹر 55 سینٹی میٹر سے کم نہیں ہونا چاہیے دوسرے یہ کہ انہوں نے اب تک کبھی کوئی سرکاری ملازمت نہ کی ہو۔ ان کے پاس سعودی شہریت اور ہائی اسکول کا ایک عدد ڈپلوما ہونا چاہیے۔ ان شرائط پر پورا اترنے والی خواتین ملکی فوج میں خدمات انجام دینے کے لیے درخواست دے سکتی ہیں۔

سعودی خواتین کوکیا کرنے کی اجازت نہیں؟

 

ایک لمبی جست

اس عرب بادشاہت میں  2018ء تک خواتین کو آزادانہ طور پر گاڑی چلانے کا حق نہیں تھا۔ اب ملک کی بری، بحری اور فضائی افواج کے ہر شعبے میں ممکنہ طور پر ان کے لیے راستے کھولے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ سعودی خواتین فوج کے اعلیٰ عہدوں کے لیے بھی درخواستیں دے سکیں گی۔ خواتین کو فوج میں داخلے کی اجازت کا فیصلہ دراصل اکتوبر 2019 ء میں کیا گیا تھا۔ اُس وقت وزارت دفاع کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک پیغام میں کہا گیا تھا،''خواتین کو با اختیار بنانے کی سمت ایک اور قدم۔‘‘ واضح رہے کہ اس سے پہلے سعودی قیادت نے محکمہ پولیس اور قومی حفاظت کے دیگر شعبوں کو خواتین کے لیے کھول دیا تھا۔ تاہم سعودی عرب میں خواتین سیاسی کارکنوں کی قید و بند کی سزا نے اس معاشرے کی مجموعی تصویر کو بہت دھندلا کر رکھا ہے تاہم حالیہ برسوں میں اس عرب بادشاہت میں خواتین کے حقوق میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

Saudische Dattelfabrik vollständig von Frauen geführt
سعودی عورتوں کا روایتی کام کھجور کی پیکنگ۔تصویر: Yosri Ahmed/Reuters

 فوج میں شمولیت اور کوٹہ

یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات (ای سی ایف آر) کی سیاسی تجزیہ کار سنزیا بیانکو کا خیال ہے کہ اس  کی ایک اہم وجہ خواتین کی 'وژن 2030' میں شمولیت ہے۔ اس طرح سعودی عرب میں لیبر فورس میں خواتین کے تناسب کو اوسطاً 20 سے بڑھا کر 40 فیصد تک  کیا جائے گا۔

خلیجی ریاست کے سیاسی امور کی ماہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ خواتین میں فوجی شمولیت کے مواقع کو بڑھانے کا ایک اور مقصد شہریوں پر فوجی خدمات کو زیادہ سے زیادہ اثر انداز بنانا ہے۔ اس فیصلے سے ایک طرف فوج میں بھرتی سے شہریوں اور ان کے ملک کے درمیان جذباتی تعلقات کو فروغ دے گی  دوسرے اس سے معاشرے میں، خاص طور سے نوجوان طبقے میں صنفی عدم مساوات کم کرنے میں مدد ملے گی۔ یہی وہ طبقہ ہے جس میں بیچینی پائی جاتی ہے اور یہ حکومت پر تنقیدی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ خواتین کو فوج میں شامل کر کے ریاستی اداروں کے مابین مجموعی تعلقات کو بھی تقویت  دی جا سکے گی۔

سعودی خواتین کے لیے سفر کی آزادی؟

مضبوط اور کمزور فوج

عرب بادشاہت سعودی عرب کی فوج پہلی نظر میں کوئی خاطر خواہ طاقت کی حامل نظر نہیں آتی۔ انفرادی ممالک کی فوجی طاقت کی پیمائش کرنے والے '' گلوبل فائر پاور‘‘ پورٹل کے مطابق سعودی فوج میں نصف ملین ملازمین شامل ہیں۔ جن میں سے اکثریت یعنی قریب 4 لاکھ اسّی ہزار براہ راست فوجی شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ اس درجہ بندی میں دنیا کے 139 ممالک میں سعودی عرب 17 ویں نمبر پر ہے اور اس کی فوج عرب دنیا کی مضبوط ترین فوجوں میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اسلحہ درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔

Großbritannien Amnesty Protest für inhaftierte Frauen in Saudi-Arabien
برطانیہ میں سعودی سفارتخانے کے باہر سعودی خواتین اپنی ہم وطن عورتوں کو گاڑی چلانے کا حق دلوانے کا مطالبہ کرتی ہوئی۔تصویر: picture-alliance/Photoshot/Retna/Avalon.red./J. Ng

  ملا جلا رد عمل

سعودی عرب میں فوج میں خواتین کے داخلے کی راہ ہموار کرنے پر پس پردہ اعتراضات اور تنقید کے قوی امکانات ہیں۔ خاص طور سے قدامت پسند گھرانوں اور حلقوں کی طرف سے۔ اس خبر کے سامنے آنے پر ابتدائی رد عمل جو سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آیا وہ منقسم تھا۔ ایک خاتون صارف نے اس پر کھل کر اپنی خوشی کا اظہار بھی کیا جبکہ ایک دوسری صارف گو مگو کا شکار نظر آئی جنہوں نے یہ سوال اُٹھایا کہ کیا فوج میں خواتین پردے میں خدمات انجام دیں گی؟

سعودی ریستورانوں میں صنفی امتیاز کا خاتمہ

 

 سعودی نسوانیت پسندی

در حقیبقت ابھی تک فوج میں خواتین کے یونیفارم سے متعلق تفصیلات جاری نہیں ہوئی ہیں۔ اسی طرح درخواستوں کی تعداد اور خواتین ان کی رہائش کے لیے بیرکس وغیرہ کے بارے میں بھی کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں لیکن شاہی خاندان نے اس پیش رفت کو ملک میں جدید اصلاحات کا مظہر بتاتے ہوئے میڈیا پر اس کی تشہیر شروع کر دی ہے۔ سعودی اخبار الوطن  اور دیگر ریاستی میڈیا پر خاتون صحافی آبر ال علی اس پیش قدمی کو سعودی عرب میں 'نسوانیت پسندی‘ کی ایک روشن مثال کے طور پر پیش کرنے اور اس کی تشہیر کے لیے کوشاں نظر آ رہی ہیں ۔

سعودی عرب میں 'نسوانیت پسندی‘ کا مطلب خواتین کے حقوق کو مضبوط بنانا اور ان کے معیار زندگی میں بہتری لانے کے سوا اور کچھ نہیں تاہم ماہرین اسے خارجہ پالیسی سے متعلق ایک اہم تاثر پیدا کرنے اور بیرنی دنیا کو سعودی معاشرے میں اصلاحات کے ضمن میں ایک واضح اور مضبوط سگنل دینے کے مترادف سمجھ رہے ہیں۔

کرسٹن کنپ/ ک م