1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جنگ طویل ہو گی، جنرل ڈیمپسی

ندیم گِل16 نومبر 2014

امریکی افواج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی نے کہا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کو جنگ کا نقصان پہنچنا شروع ہو چکا ہے۔ انہوں نے یہ بات عراق کے ایک اچانک دورے کے موقع پر کہی۔

https://p.dw.com/p/1DoD0
تصویر: Reuters

چیئرمین آف جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی ہفتے کو ایک اچانک دورے پر عراق پہنچے تھے۔ امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے ملکی فورسز کو دوبارہ عراق بھیجنے کے اعلان کے بعد سے یہ ڈیمپسی کا پہلا دورہ عراق تھا۔

اس موقع پر انہوں نے کہا کہ خود ساختہ اسلامی ریاست کے خلاف جنگ کئی برسوں تک جاری رہ سکتی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ جنگ ایک موڑ لے رہی ہے جو اسلامک اسٹیٹ کے خلاف ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان کے دورے سے قبل ہفتے کو ہی عراقی فوج کے ایک کرنل نے کہا تھا کہ ان کی سکیورٹی فورسز بیجی کے شہر میں ملک کی سب سے بڑی ریفائنری کا کنٹرول حاصل کرنے کے قریب دکھائی دیتی ہیں۔ اس ریفائنری پر اسلامک اسٹیٹ کے شدت پسندوں نے گزشتہ کئی مہینوں سے قبضہ کر رکھا ہے۔

US General Martin Dempsey im Irak
جنرل ڈیمپسی نے عراق میں تعینات امریکی فوجیوں سے ملاقات کیتصویر: Reuters/Stewart

امریکی صدر باراک اوباما نے گزشتہ ہفتے عراق میں اپنی زمینی فورسز کی تعداد دگنی کرنے کی منظوری دی تھی۔ دورہ عراق کے موقع پر جنرل ڈیمپسی نے عراق میں تعینات امریکی فوجیوں سے ملاقات کی، جن سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ امریکی فوج نے عراق کو مصیبت سے نکالنے میں عراق اور کرد فورسز کی مدد کی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’’اور اب، میں سمجھتا ہوں کہ تبدیلی آنا شروع ہو گئی ہے۔ لہٰذا یہ بہت اچھا ہے۔‘‘

جنرل ڈیمپسی کے مطابق یہ دکھانا بہت ضروری تھا کہ اسلامک اسٹیٹ کو روکا جا سکتا ہے۔ وہ بارہا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ جب تک عراقی حکومت شیعہ سنی اختلافات کو ختم نہیں کر لیتی، ملٹری فورس اسلامک اسٹیٹ کا خاتمہ نہیں کر سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ اعتماد قائم کرنے میں وقت لگے گا اور اسی طرح امریکی مشن میں بھی۔ انہوں نے کہا: ’’کتنا وقت؟ کئی برس!‘‘

اس دورے کے موقع پر جنرل ڈیمپسی نے عراقی وزیر اعظم حیدر العابدی سمیت دیگر حکام سے بھی ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے بعد ازاں روئٹرز سے بات چیت میں کہا: ’’میں ان سے ملاقات کے دوران یہ اندازہ لگانا چاہتا تھا کہ آیا وہ ہمارے نظام الاوقات کو معقول سمجھتے ہیں۔‘‘

اس وقت امریکا کے تقریباﹰ ایک ہزار چار سو فوجی عراق میں تعینات ہیں۔ اوباما کی جانب سے دی گئی نئی منظوری کے تحت تین ہزار ایک سو تک فوجی تعینات کیے جا سکتے ہیں۔

بغداد میں عراقی حکام سے ملاقاتوں کے بعد جنرل ڈیمپسی اربیل روانہ ہو گئے جو عراق کے شمالی علاقے میں نیم خود مختار کردستان کا دارالحکومت ہے۔ امریکی فوجی کرد فورسز کو بھی تربیت دیں گے۔