اسلام مخالف فلم بنانے والے قبطی مبلغ سے متاثر تھے، امریکی اخبار
16 ستمبر 2012امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے اپنی اتوار کی اشاعت میں لکھا ہے کہ یہ قبطی مبلغ جنوبی کیلیفورنیا کا رہنے والا ایک مسیحی مشنری ہے جس نے پیغمبر اسلام کی توہین کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔ اس قبطی مسیحی مبلغ کا نام ذکریا بطروس ہینائن ہے۔ ذکریا بطروس اپنے پیروکاروں کو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ پیغمبر اسلام ’بچوں سے جنسی رابطے رکھنے والے اور ہم جنس پرست ‘ بھی تھے۔
خبر ایجنسی اے ایف پی نے لاس اینجلس کے اس روزنامے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس قبطی مبلغ نے اس متنازعہ فلم کو اپنے مفاد کے لیے اس طرح استعمال کیا کہ اس فلم میں بھی پیغمبر اسلام کی توہین کرتے ہوئے وہی کچھ کہنے کی کوشش کی گئی ہے جو ذکریا نامی قبطی مبلغ کہتا ہے۔
کیلیفورنیا کے اس جریدے کے مطابق ذکریا بطروس ہینائن کا اس فلم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے جس میں پیغمبر اسلام کے بارے توہین آمیز رویہ اپنایا گیا ہے۔ تاہم وہ تینوں افراد جنہوں نے Innocence of Muslims یا ’مسلمانوں کی معصومیت‘ کے نام سے یہ متنازعہ فلم بنائی، وہ قبطی مبلغ ذکریا کے خیالات کے حامی ہیں۔
اسٹیو کلائن ایک ایسا مسیحی باشندہ ہے جس نے اس فلم کے اسکرپٹ پر کام کیا۔ وہ ذکریا بطروس کا ایک قریبی دوست بھی ہے۔ اخبار کے مطابق اسٹیو کلائن کا کہنا ہے کہ یہ قبطی مبلغ امریکا میں شہری حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والا اتنا ہی بڑا لیڈر ہے جتنا کہ ماضی کا لیڈر مارٹن لوتھر کنگ۔ اسی طرح جوزف نصراللہ نے بھی Coptic مسیحی رہنما ذکریا کے لیے اپنی طرف سے عقیدت کا اظہار کیا ہے۔
لاس اینجلس ٹائمز نے آج لکھا ہے کہ ’مسلمانوں کی معصومیت‘ نامی فلم کا ایک حصہ Duarte میں فلمایا گیا تھا۔ وہاں کام کرنے والی ایک مسیحی خیراتی تنظیم کا سربراہ جوزف نصراللہ ہی ہے۔ جوزف نصراللہ کے مطابق ذکریا بطروس نے اپنی ایک ویب سائٹ بھی قائم کر رکھی ہے جو ’بہت اچھی‘ ہے اور جس کا پتہ FatherZakaria.net ہے۔
دریں اثنأ اس فلم کی پروڈکشن کا انتظام کرنے والا ایک امریکی شہری ناکُولا بیسیلی ناکُولا اس وقت کیلیفورنیا کی ایک وفاقی جیل میں زیر حراست ہے۔ وہ بینک فراڈ کے جرم میں سزا یافتہ ہے۔ اب اس پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ اس فلم کی تیاری میں شامل ہو کر اپنی رہائی کی عدالتی شرائط کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا تھا۔ ناکُولا اس بات سے انکاری نہیں کہ اس متنازعہ فلم کی تیاری کا انتظام اس نے کیا۔ اس نے جیل میں اس بارے میں کھل کر اظہار رائے کیا کہ وہ ذکریا بطروس سے کتنی عقیدت رکھتا ہے۔
اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے بعد میں ذاتی طور پر ذکریا بطروس سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ اس موقع پر بطروس کے بیٹے بنیامین نے کہا کہ اس کے والد کسی بھی تبصرے کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔ اس جریدے نے لکھا ہے کہ ذکریا بطروس کے بیٹے نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے والد کی زندگی کو لاحق خطرات کی وجہ سے یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔
ذکریا بطروس کیلیفورنیا میں الفادی کے نام سے ایک عربی سیٹلائٹ ٹیلی وژن بھی چلاتا ہے۔ اس مبلغ نے اس ٹی وی چینل پر نہ صرف اس متنازعہ فلم کی تیاری کا دفاع کیا بلکہ اس فلم کے بارے میں نظر آنے والے پر تشدد رد عمل پر بھی تنقید کی۔
خبر ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ لاس اینجلس ٹائمز کے مطابق ذکریا بطروس ماضی میں اپنے آبائی وطن مصر میں کئی مرتبہ جیل بھی جا چکا ہے۔ اس کی وجہ اس کی وہ کوششیں تھیں جو اس نے مسلمانوں کو عیسائیت قبول کرنے پر آمادگی کے لیے کی تھیں۔ بعد میں ذکریا بطروس نے جلاوطنی اختیار کر لی تھی۔
آسٹریلیا میں قیام کے دوران بطروس نے ایک ایسی مسیحی ویب سائٹ شروع کی تھی جس کا پیغام یہ تھا کہ اسلام ایک ’راہ راست سے ہٹا ہوا‘ مذہب ہے۔ پھر القاعدہ نے مبینہ طور پر بطروس کے سر کی قیمت لگا دی تھی اور سن 2000 ء میں یہ مصری نژاد قبطی مبلغ امریکی ریاست کیلیفورنیا میں قیام پذیر ہو گیا جہاں اس نے اپنا الفادی نیٹ ورک شروع کر دیا تھا۔
Ij / km (Reuters, AFP)