اسلام آباد: ڈنمارک کے سفارت خانے پر خود کش حملہ
2 جون 2008دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ ڈنمارک کے سفارت خانے کی عمارت کے باہر درجنوں گاڑیاں تباہ ہو گئیں اور ڈنمارک کے سفارت خانے کے قرب میں واقع ایک غیر سرکاری تنظیم کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا۔ پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ ایک خود کش حملہ تھا جس میں حملہ آور سمیت آٹھ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں سفارت خانے میں کام کرنے والا ایک پاکستانی بھی شامل ہے۔ خود کش حملہ آور ایک گاڑی میں سوار تھااور وہ ڈنمارک کے سفارت خانے کے بے حد قریب پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔
ڈنمارک کے وزیرِ خارجہ پیر اسٹیگ موئلر نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ناقابلِ برداشت قرار دیا ہے اور ڈنمارک کے وزراء کی ایک ایمرجنسی میٹنگ طلب کر لی ہے۔
اس واقعے کہ بعد یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ پیغمبر ِ اسلام کے متنازعہ کارٹونز کی ڈنمارک میں اشاعت کے تناظر میںپاکستان بھر میں ڈنمارک ے سفارت خانوں کے گرد سخت ترین حفاظتی انتظامات کے بعد خود کش حملہ آورسفارت خانے کے اس قدر قریب پہنچنے میں کیسے کامیاب ہوا؟
دھماکے پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کی مخلوط حکومت میں شامل جماعت مسلم لیگ نواز گروپ کے رہنما صدیق الفاروق کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ حفاظتی انتظامات میں غفلت کا نتیجہ ہے اور ان کے خیال میں پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں پر واقعے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
واقعے کے بعد ناروے نے اسلام آباد میں اپنے سفارت خانے کو بند کر دیا ہے۔ چند ماہ قبل پیغمبر ِ اسلام کے متنازعہ خاکوں کی ڈنمارک کے ایک اخبار میں دوبارہ اشاعت کے بعد مسلمان ملکوں میں ڈنمارک کے خلاف احتجاجی مظاہروں اور انتہا پسندوں کی جانب سے ڈنمارک کے سفارت خانوں پر ممکنہ حملے سے بچنے کی غرض سے ڈنمارک حکومت نے افغانستان اور الجزائر سے اپنے سفارت خانوں کو نا معلوم مقامات پر منتقل کر دیا تھا۔ اس ضمن میں پاکستان میں بھی ڈنمارک کے سفارت خانوں کے گرد حکومت ِ پاکستان نے سخت حفاظتی انتظامات کیے تھے اور ڈنمارک نے پاکستان میں اپنے سفارت خانوں کے عملے میں خاصی حد تک کمی کر دی تھی۔
اسلام آباد میں ڈنمارک کے سفارت خانے پر ہونے والا یہ خود کش حملہ اس سال پندرہ مارچ کو اسلام آباد کے ایک اطالوی ریسٹورنٹ پر ہونے والے خود کش حملے کے بعد پہلا حملہ ہے۔ پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعدپاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے جس کی ایک وجہ پاکستان کے شِمال مغربی قبائلی علاقوں میں حکومت اور عسکریت پسندوں کے درمیان امن معاہدے کا نفاذ اور بات چیت کا آغاز بھی ہے۔ اس تناظر میں بعض مبصرین ڈنمارک کے سفارت خانے پر حملہ کو ایک غیر معمولی واقعہ قرار دے رہے ہیں۔