1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل کے قیام کے 65 سال

14 مئی 2013

ویانا کے صحافی اور صیہونیت کے بانی تھیوڈور ہیرسل نے 1902ء میں لکھا: ’’اگر تم چاہو تو یہ کوئی دیو مالائی داستان نہیں ہے۔‘‘ پھر 50 سال سے بھی کم عرصے میں ان کا تصور یعنی ریاست اسرائیل کا قیام حقیقت کا روپ دھار چکا تھا۔

https://p.dw.com/p/18XMQ
تصویر: picture-alliance / akg-images

14 مئی 1948ء وہ دن تھا، جس نے مشرقِ وُسطیٰ کو ہلا کر رکھ دیا۔ اُس روز شہر تل ابیب کے ایک عجائب گھر میں ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ محض چند ایک غیر واضح بلیک اینڈ وائٹ تصاویر، ہلتے ہوئے کیمرے سے بنی ایک مختصر سی فلم اور انتہائی خراب کوالٹی کا صوتی ریکارڈ ہی اِس واقعے کے گواہ ہیں۔ ان تصاویر میں یہودیوں کی خود مختار فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان کو بھی دیکھا جا سکتا ہے، جن کے پیچھے دیوار پر صیہونیت کے بانی تھیوڈور ہیرسل کی تصویر آویزاں ہے۔ بن گوریان کے بائیں ہاتھ میں وہ دستاویز ہے، جس پر اعلانِ آزادی کی عبارت درج ہے۔

بن گوریان نے کہا تھا: ’’اسرائیل ہی میں یہودی قوم نے جنم لیا تھا اور یہیں اُس کے فکری، مذہبی اور سیاسی وجود کی آبیاری ہوئی۔‘‘ اور یہ کہ طاقت کے زور پر در بدر کی جانے والی یہودی قوم جلا وطنی کے دور میں بھی اپنے آبائی وطن کے ساتھ وفاداری کا دم بھرتی رہی۔ مزید یہ کہ اُس کی اپنے وطن واپسی کی امید ہمیشہ زندہ رہی۔ پھر بن گوریان نے بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ اعلان کیا:’’ہم یہاں اسرائیلی سرزمین پر یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ ہے ریاست اسرائیل۔‘‘

19 مئی 1948ء کی اس تصویر میں یروشلم کے صیہون اسکوائر کی ایک سڑک پر رکھے گئے ان خاردار تاروں کا مقصد یہ ہے کہ عرب اور یہودی ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں نہ آئیں
19 مئی 1948ء کی اس تصویر میں یروشلم کے صیہون اسکوائر کی ایک سڑک پر رکھے گئے ان خاردار تاروں کا مقصد یہ ہے کہ عرب اور یہودی ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں نہ آئیںتصویر: AP

اسرائیل کے اس پہلے وزیر اعظم نے اپنی ڈائریوں میں بعد ازاں تحریر کیا: ’’اس اجلاس کے اختتام پر ہمارا قومی ترانہ ’ہاتِکوا‘ گایا گیا۔ باہر تل ابیب کی سڑکوں پر قوم رقص کر رہی تھی۔‘‘

آزادی کی جنگ

ریاست کے قیام پر خوشی کا یہ اظہار عارضی ثابت ہوا کیونکہ جلد ہی اس نئی ریاست پر ایک جنگ کے سائے منڈلانے لگے۔ عرب ممالک نے اقوام متحدہ کے سن 1947ء کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ برطانیہ کی عملداری میں واقع علاقے کو یہودیوں اور عربوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس فیصلے میں یہودیوں کو فلسطین کا نصف سے زیادہ حصہ دے دیا گیا تھا۔ تاہم فیصلے کے مطابق تقریباً پانچ لاکھ یہودیوں کو جو علاقہ دیا گیا، وہاں اُنہیں چار لاکھ چالیس ہزار فلسطینیوں کے ساتھ بھی مل جُل کر رہنا تھا۔

اسرائیلی مؤرخ ایلان پاپے کے مطابق اس طرح پہلے سے ہی ایک ایسی بنیاد ڈال دی گئی تھی، جس کا لازمی نتیجہ ایک المیے کی صورت میں برآمد ہونا تھا۔ تب آبادی کے توازن کو یہودیوں کے حق میں بدلنے کے لیے بن گوریان نے دَس لاکھ فلسطینیوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا اور ساڑھے سات لاکھ فلسطینی یعنی 80 فیصد سے زیادہ آبادی واقعی اپنا آبائی وطن چھوڑ کر چلی گئی۔ ان لوگوں نے ہمسایہ عرب ممالک کا یا پھر مغربی اُردن اور غزہ کا رُخ کیا، جہاں اسرائیل کی عملداری نہیں تھی۔ تب 530 فلسطینی دیہات صفحہء ہستی سے مٹ گئے اور گیارہ شہر تباہ کر دیے گئے۔

یہودیوں کے لیے عبادت کرنے کی مقدس ترین جگہ دیوار گریہ
یہودیوں کے لیے عبادت کرنے کی مقدس ترین جگہ دیوار گریہتصویر: AP

چھ روزہ جنگ اور اُس کے نتائج

تاہم بیس سال سے بھی کم عرصے بعد 1967ء کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے اپنی حکمرانی کو مغربی اردن اور غزہ تک بھی وسعت دے دی۔ پانچ اور دَس جون 1967ء کو اسرائیلی دستوں نے مصر، اردن اور شام کی اَفواج کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے مغربی اردن، غزہ پٹی اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ اس غیر متوقع اور بے پناہ فوجی کامیابی نے اسرائیلی عوام میں قومی اور مذہبی جوش کی ایک لہر دوڑا دی۔ خاص طور پر مشرقی یروشلم اور یہودیوں کے لیے مقدس اہم یادگار دیوار گریہ کی فتح نے اسرائیلی قوم میں جوش و جذبے کے زبردست احساسات پیدا کر دیے۔

اس کے کچھ ہی عرصے بعد مقبوضہ علاقوں میں ابتدائی یہودی بستیاں تعمیر ہونا شروع ہو گئیں۔ لیبر پارٹی کی حکومت میں ان بستیوں کی تعمیر کی نہ صرف کھلی چھٹی دے دی گئی بلکہ ان کو فروغ دیا گیا تاکہ مغربی اردن اور غزہ پٹی کی فلسطینی آبادی کو مسلسل نظر میں رکھا جا سکے اور وہاں خود مختار ڈھانچے تشکیل نہ ہونے پائیں۔

بستیوں کی تعمیر کی پالیسیوں کو نہ تو مصر کے ساتھ 1979ء میں طے پانے والا امن معاہدہ روک سکا، نہ ہی یہ 1993ء میں شروع کیے جانے والے امن عمل کے نتیجے میں ختم ہو سکیں اور نہ ہی 2005ء میں غزہ پٹی سے اسرائیلی انخلاء ان کے آگے بند باندھ سکا۔ 1994ء میں قتل ہونے والے اسرائیلی وزیر اعظم یتسحاک رابین بھی، جو کھلے عام آباد کاروں کی مخالفت کرتے تھے، مقبوضہ علاقوں میں واقع بستیوں کو خالی کرنے کا قدم ا ٹھانے کا حوصلہ نہ کر سکے۔

وفاقی جرمن چانسلر کونراڈ آڈیناؤر دَس ستمبر 1952ء کو یہودیوں کے لیے زرِ تلافی کے لکسمبرگ معاہدوں پر دستخط کرتے ہوئے
وفاقی جرمن چانسلر کونراڈ آڈیناؤر دَس ستمبر 1952ء کو یہودیوں کے لیے زرِ تلافی کے لکسمبرگ معاہدوں پر دستخط کرتے ہوئےتصویر: AP

آج کل مغربی اردن اور مشرقی یروشلم میں تقریباً پانچ لاکھ یہودی آباد کار رہ رہے ہیں۔ ان میں مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کے وہ نئے تارکین وطن بھی شامل ہیں، جو سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد اسرائیل پہنچے تھے۔ اسرائیل میں تقریباً ایک ملین اسرائیلی یہودیوں کو پناہ دی گئی۔ 1991ء میں ایک ہنگامہ خیز آپریشن میں تقریباً 14 ہزار یہودیوں کو ایتھوپیا سے لا کر اسرائیل میں آباد کیا گیا۔

جرمنی کے ساتھ تعلقات

وفاقی جمہوریہ جرمنی 1965ء سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ہوئے ہے۔ 1952ء میں جرمنی نے لکسمبرگ معاہدے کے تحت اُن یورپی یہودیوں کے لیے زرِ تلافی کے طور پر خود کو تقریباً ساڑھے تین ارب مارک کی ادائیگی کا پابند کیا تھا، جنہیں نازی سوشلسٹوں نے اُن کے حقوق سے محروم کیا تھا یا اُنہیں قتل کیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر کونراڈ آڈیناؤر نے کہا تھا: ’’ہم پر لازم تھا کہ جہاں تک ہو سکے، اُس نا انصافی کی تلافی کریں، جس کا سامنا یہودیوں کو نازی سوشلسٹوں کے ہاتھوں کرنا پڑا۔‘‘

B.Marx/aa/mm