اسرائیل: غزہ کے معاملے میں فائر بندی کی ابھی کوئی گنجائش نہیں
30 دسمبر 2008عینی شاہدوں کے مطابق آج اسرائیلی طیاروں نے ایک بار پھر غزہ میں حماس کے ایک حکومتی مرکز، ایک مسجد اور حماس کے ایک تربیتی مرکز کو نشانہ بنایا۔ غزہ پٹی کے شمال میں ایک گدھا گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، جس سے اُس پر بیٹھی چار اور گیارہ سال کی عمر کی دونوں فلسطینی بہنیں ہلاک ہو گئیں۔
بیت لاہیہ میں حماس کے ایک کمانڈر کے گھر کو نشانہ بنایا گیا لیکن وہاں بھی حماس کے کارکنوں کی بجائے زیادہ تر اِس گھر کے پڑوس میں رہنے والے اور راہگیر ہلاک ہوئے۔ اقوامِ متحدہ کے اعدادوشمار میں بھی اب تک مرنے والے عام شہریوں کی تعداد ساٹھ سے زیادہ بتائی گئی ہے۔ فلسطینی والدین اپنے چالیس سےزیادہ بچوں کی ہلاکت پر بھی نوحہ کناں ہیں۔
اسرائیل کو قابض طاقت قرار دیتے ہوئے آج عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل امرِ موسیٰ کا کہنا تھا: ’’اِس قابض طاقت کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتے ہوئے واپس ہٹنا ہو گا اورکارروائی کرتے وقت غزہ کی آبادی کے مخصوص انسانی اور بنیادی حقوق کی پاسداری کرنا ہو گی۔ غزہ کے حالات موجودہ نوبت کو مسلسل محاصرے اور فاقہ کشی کی وجہ سے پہنچے ہیں۔اسرائیل حماس کو نہیں بلکہ عام شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔‘‘
دوسری جانب اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک کے نائب ماتان ولنائی نے اسرائیلی ریڈیو میں کہا:’’ہم حماس پر ایک بہت ہی کاری ضرب لگانا چاہتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے کے روز سے حماس اِس ضرب کو محسوس کر رہی ہے ا ور ہم تب تک اُسے نشانہ بناتے رہیں گے، جب تک وہ یہ جان نہیں جاتی کہ ریاستِ اسرائیل کو چیلنج کرنے کا مطلب ہوتا کیا ہے۔ ہم ملک کے جنوب میں حالات کو مکمل طور پر بدل دینا چاہتے ہیں۔‘‘
ایک روز قبل اسرائیل میں بسنے والے عرب شہریوں نے بھی اپنے ملک کی جانب سے غزہ پر فوجی حملے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ اسرائیلی اپوزیشن کے قائد بنجمن نتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیل اپنے ہاں آباد عرب اقلیت کے اندر موجود اُن عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹے گا، جو حماس کے حامی ہیں: ’’میرے خیال میں طویل المدتی بنیادوں پر یہ سوال پوچھا جانا پڑے گا کہ دہشت گردوں کے اِس ایرانی گڑھ کو کیسے روکا جائے ، جس کا نصب العین ہماری تباہی ہے۔ حماس کہتی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ امن نہیں چاہتی، ہمارے شہروں کو صفحہء ہستی سے مٹانا چاہتی ہے۔ آپ ہی بتائیے کہ کوئی ملک ایسے عناصر کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ چنانچہ ہم نے کارروائی شروع کر دی ہے اور بالآخر ہم حماس کی حکومت ختم کر دیں گے‘‘
جہاں اسرائیل نے کہا ہے کہ ا ُس کی فوجی کارروائی ہفتوں جاری رہ سکتی ہے، وہاں حماس نے بھی اپنے راکٹ حملے جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ ریڈیو رپورٹوں کے مطابق سرحدی اسرائیلی قصبے سدےروٹ پر تین راکٹ گرے لیکن کوئی شخص زخمی نہیں ہوا۔ ستائیس دسمبر کو موجودہ فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد سے چار اسرائیلی باشندے بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مُون نے فائر بندی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور حماس دونوں کو اپنی پُر تشدد کارروائیاں بند کر دینی چاہییں تاکہ شہری آبادی میں مزید ہلاکتوں کو روکا جا سکے۔ اقوامِ متحدہ کی اِس طرح کی اپیلوں کے باوجود اسرائیلی قیادت کا کہنا یہ ہے کہ حماس کی طرف سے راکٹ حملوں کے خطرے کے مکمل خاتمے تک فائر بندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اِدھر یورپی یونین کے وُزرائے خارجہ مشرقِ وُسطےٰ کے خراب تر ہوتے ہوئے حالات پر آج شام یونین کے موجودہ صدر ملک فرانس کے دارالحکومت پیرس میں تبادلہء خیال کرنے والے ہیں۔ اِس سے پہلے مشرقِ وُسطےٰ کی صورتحال جاننے کے لئے فرانسیسی سربراہِ مملکت نکولا سارکوزی نے ٹیلی فون پر اپنے مصری ہم منصب حوسنی مبارک کے ساتھ بات چیت بھی کی۔