1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین نے صحرا میں ایک نیا شہر کھڑا کر دیا

عاطف بلوچ10 جولائی 2016

اردن کے صحرائی علاقے الزرق میں واقع مہاجر کیمپ میں بسنے والے شامی پناہ گزینوں نے ایک شہر ہی بسا لیا ہے۔ وہاں کی گہماگہمی جنگ سے تباہ حال مہاجرین و تارکین وطن میں زندگی کی ایک نئی نوید نظر آتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1JMTX
Jordanien im Flüchtlingslager Azraq
اسامہ عاجل نے الزرق کے مہاجر کیمپ میں ایک ہارڈ ویئر کی دوکان کھول رکھی ہےتصویر: DW/B. Staton

اسامہ عاجل نے الزرق کے مہاجر کیمپ میں ایک ہارڈ ویئر کی دوکان کھول رکھی ہے، جہاں مختلف قسم کا سامان فروخت کیا جاتا ہے۔ اسی دوکان کے نزدیک شام کے وقت شامی مہاجرین اکٹھے بیٹھ کر چائے پیتے ہیں اور اس کیمپ کے علاوہ اپنے ملک کی سیاست پر بھی گفتگو کرتے ہیں۔ اسامہ کے بقول، ’’یہاں (اس کیمپ میں) اچھا بزنس چل رہا ہے‘‘، انہوں نے مزید کہا کہ یہاں کے لوگوں کو ایک اچھا موقع ملا ہے کچھ کرنے کا۔

اردن کے شہری اسامہ نے ہی اس کیمپ کا نام رکھا اور اپنی کوششوں سے انہوں نے وہاں سو نئے بزنس بھی شروع کیے۔ اس کیمپ میں اب ایک نئی زندگی دیکھی جا سکتی ہے، جہاں دوکانیں کھل چکی ہیں اور لوگوں کے پاس خریداری کے بہتر مواقع بھی آ چکے ہیں۔

دو سال قبل جب الزرق میں شامی مہاجرین نے آنا شروع کیا تھا تو یہ صحرائی علاقہ سنسان اور غیر گنجان آباد تھا۔ اس مہاجر کیمپ کے نزدیک صرف ایک ہی دوکان تھی، جو دو کلو میٹر کی دوری پر تھی۔ تب ان مہاجرین کو کوئی چھوٹی سے چیز خریدنے کے لیے بھی سخت گرمی میں چار کلو میٹر کا پیدل سفر کرنا ہوتا تھا۔

تاہم اسامہ کی کوششوں سے اب الزرق کا مہاجر کیمپ ایک شہر کا نقشہ پیش کرتا ہے، جہاں بہت سی دوکانیں کھل چکی ہیں، جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کو نہ صرف زیادہ متبادل مل چکے ہیں بلکہ اشیاء کی قیمتوں میں بھی کمی پیدا ہو چکی ہے۔

اس تمام کوشش کے باوجود ایک مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا ہے۔ اس مہاجر کیمپ کے باسیوں کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ الزرق میں واقع ایک دوکان پر کام کرنے والے شامی مہاجر باصل کے بقول ’لوگوں کے پاس خریدنے کی طاقت نہیں ہے۔ ان کے پاس رقم نہیں ہے۔‘‘ اسامہ بھی کہتے ہیں، ’’لوگوں نے اگر خرچ کرنا ہے تو ان کے پاس انکم ہونی چاہیے۔ لیکن اس کیمپ میں ابھی تک روزگار کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔‘‘

اس کیمپ کو قائم ہوئے دو سال گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک وہاں بجلی کا انتظام بھی نہیں ہو سکا ہے۔ اس کیمپ میں لوگوں کی آمدورفت کے علاوہ سامان کی فراہمی کا نظام بھی انتہائی پیچیدہ ہے کیونکہ حکام سکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس کیمپ میں ملازمتوں کے لیے غیر سرکاری اداروں نے کچھ منصوبے شروع کیے ہیں لیکن وہ بھی زیادہ مؤثر نہیں ہیں۔

تاہم امدادی کارکنوں کا یہ کہنا ضرور ہے کہ الزرق مہاجر کیمپ اردن میں واقع دیگر مہاجر کیمپوں سے بہت بہتر ہے۔ بالخصوص الزعتری کے مہاجر کیمپ کے مقابلے میں الزرق بہت پرسکون ہے، جہاں نہ تو جرائم پیشہ افراد فعال ہیں اور نہ مہاجرین کے مابین تصادم ہوتا ہے۔

الزرق مہاجر کیمپ میں باصل جیسے افراد کا کہنا ہے کہ جب سے اس کیمپ میں لوگوں کو مصروفیت ملی ہے تو ان کی زندگیوں میں ایک مثبت تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ ان کے مطابق کام ہی کی وجہ سے ان کی اپنی زندگی میں بھی بہتری پیدا ہوئی ہے۔ ایک اور شامی مہاجر احمد کے بقول رضاکارانہ طور پر کام کرنے سے ان کی زندگی کو ایک مقصد مل گیا ہے ورنہ پہلے تو وہ انتہائی مایوس ہو چکے تھے۔

Jordanien im Flüchtlingslager Azraq
اردن کے صحرائی علاقے الزرق میں واقع مہاجر کیمپ میں بجلی کا اںتظام نہیں ہےتصویر: DW/B. Staton
Jordanien im Flüchtlingslager Azraq
الزرق کیمپ میں پانی کی فراہمی بھی ایک مسئلہ ہےتصویر: DW/B. Staton
Jordanien im Flüchtlingslager Azraq
اس کیمپ میں ملازمت کرنے والے مہاجرین کو خوش قسمت قرار دیا جاتا ہےتصویر: DW/B. Staton
Jordanien im Flüchtlingslager Azraq
اس صحرائی علاقے میں سکیورٹی کا سخت انتظام ہے۔تصویر: DW/B. Staton
Symbolbild - Flüchtlingslager für Syrer in Jordanien
غیر سرکاری ادارے اس کیمپ میں لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی کوشش میں ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen

تاہم اس کے باوجود الزرق مہاجر کیمپ کے لوگوں میں بے چینی بھی دیکھی جا رہی ہے۔ احمد کا کہنا ہے کہ اس کیمپ کے بہت سے نوجوان طویل المدتی بنیادوں پر اپنی زندگیوں کو تاریک دیکھتے ہیں۔ اس کیمپ کی زندگی کی وجہ سے ان کی نقل وحرکت محدود ہو چکی ہے، جو ان کے لیے پریشیانی کا باعث ہے۔

احمد نے مزید کہا، ’’جب ہم اپنے گھروں میں تھے تو ہمیں معلوم تھا کہ ہم اپنی زندگی کے ذمہ دار خود ہیں۔ لیکن یہاں ایسا نہیں۔ اس کیمپ میں ایک اعلیٰ اتھارٹی ہے، جو ہمیں کنٹرول کر رہی ہے اور ہمارے لیے فیصلے کر رہی ہے۔ اب ہم مزید اپنی زندگیوں کو کنٹرول کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں