1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ارجنٹائن کا نيا ميڈيا قانون، بحث جاری

6 دسمبر 2012

ارجنٹائن ميں ميڈيا کا ايک نيا قانون نافذ ہونے کے بعد يہ بحث جاری ہے کہ اس سے زيادہ جمہوريت آئی ہے يا آزادیء رائے خطرے ميں پڑ گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/16wqV
تصویر: DW/Marc Koch

ارجنٹائن کے ايک ريڈيو اسٹيشن کی اناؤنسر انيس فرينا نے کہا کہ ميڈيا کا نيا قانون پورے معاشرے کے ليے بہتر جمہوريت اور زيادہ آزادیء رائے لے کر آيا ہے۔ متبادل اور شہريوں کے اپنے ريڈيو اسٹيشنوں کو زيادہ آزادی مل گئی ہے۔

ريڈيو سور ارجنٹائن کے ان مقامی ريڈيو اسٹيشنوں ميں شامل ہے جو غير تجارتی ہيں اور جنہيں سماجی تنظيميں، يونيورسٹياں يا ملک کے اصل باشندے چلاتے ہيں۔ انہيں ميڈيا کے نئے قوانين سے فائدہ ہوا ہے کيونکہ اس قانون کے تحت انہيں زيادہ آسانی سے لائسنس مل جاتے ہيں۔ سابق فوجی حکومت کے 1970ء کے عشرے کے قانون کے تحت صرف نجی افراد کو ريڈيو يا ٹيلی وژن اسٹيشن چلانے کی اجازت تھی۔ 

اناؤنسر فرينہ
اناؤنسر فرينہتصویر: DW/Marc Koch

نئے قانون کے تحت زيادہ جمہوريت اور تنوع پيدا کرنا مقصود ہے اور ميڈيا صرف طاقتور اداروں کے قبضے ميں نہيں ہو گا۔ اب ايک تہائی فريکوئنسياں نجی، ايک تہائی رياستی اور ايک تہائی غير تجارتی نشرياتی اداروں کو دی جائيں گی۔ جس شعبے کے پاس اس سے زيادہ لائسنس ہيں اُسے يہ واپس کرنے ہوں گے۔

اس طرح يہ بات يقينی بنائی جائے گی کہ آبادی کے تمام گروپ خود اپنے اپنے پروگرام پيش کر سکيں۔ ليکن کيونکہ شہريوں کے ريڈيو اسٹيشن اکثر رياستی امداد کے محتاج ہوتے ہيں اس ليے ان پر حکومت کا اثر بڑھے گا۔ اس کے علاوہ يہ حکومت ہی ہے جو ہر دو سال بعد لائسنس ديے جانے يا اس ميں توسيع کے عمل کی نگرانی کرے گی۔

ليکن اس نئے قانون کے حاميوں کا کہنا ہے کہ اس طرح ملک کے طاقتور ترين ميڈيا اداروں کی طاقت ميں کمی ہو جائے گی۔ ريڈيو سور کی اناؤنسر نے کہا:  ’’ہمارا خيال ہے کہ يہ ملٹی ميڈيا اداروں کے خلاف ايک سخت مقابلہ ہوگا۔ انہوں نے پچھلے برسوں کی صورتحال سے فائدہ اٹھايا ہے۔ اب اس کا خاتمہ ہو جائے گا کيونکہ نيا ميڈيا قانون دوسروں کی طرح اُن پر بھی لاگو ہوگا۔‘‘

نيا ميڈيا قانون تين سال قبل ارجنٹائن کی پارليمان ميں منظور کيا گيا تھا ليکن اس پر آج تک شديد بحث جاری ہے۔ جنوبی امريکا کا سب سے طاقتور ميڈيا ادارہ ’گروپو کلارن‘ مقرر کردہ تعداد سے زيادہ لائسنس واپس کرنے سے انکار کر رہا ہے۔ يہ ادارہ ارجنٹائن کی صدر کرسٹينا فرنانڈس کی حکومت کے خلاف ہے اور وہ اس نئے ميڈيا قانون کو ايک سياسی چال قرار ديتا ہے تاکہ تنقيد کرنے والے ميڈيا کو خاموش کيا جا سکے۔ کلارن کے ترجمان نے کہا کہ اس کا بہترين ثبوت يہ ہے کہ قانون کے نفاذ کے تين برسوں کے اندر 80 فيصد سے زائد ريڈيو اور ٹيلی وژن ادارے براہ راست يا بالواسطہ طور پر حکومت کے زير اثر آچکے ہيں۔

اب حکومت نے کلارن کو ايک ہفتے کے اندر زائد لائسنس واپس کرنے کا حکم دے ديا ہے۔ ليکن پارليمنٹ کے ايک رکن نے کہا ہے کہ عدليہ کلارن کے ساتھ ايک خالص اقتصادی تجارتی مسئلے کو اظہار رائے کی آزادی کا مسئلہ بنا رہی ہے۔

M.Koch,sas/S.Sand,as