ادویات سب کے لیے
19 ستمبر 2013ادویات کی ہر کسی کے لیے فراہمی کو ممکن بنانے میں محض ان کی کم قیمتوں کا ہاتھ نہیں ہوتا ہے۔ اس میں بہت سے دیگر عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔
انیتا واگنر امریکا کے ہارورڈ میڈیکل اسکول کی پروفیسر ہیں۔ یہ اس بارے میں ریسرچ کر رہی ہیں کہ ادویات کی ہر کسی کے لیے فراہمی کو کس طرح ممکن بنایا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ جزوی طور پر پیسے کا معاملہ ہے۔ مثال کے طور پر فرانسیسی دوا ساز کمپنی ’سانوفی‘ کا کہنا ہے کہ یہ کم آمدنی والے ممالک میں ممکنہ حد تک سستی دوائیں بیچتی ہے۔ اس کے مقابلے میں صنعتی ممالک کو یہی ادویات مہنگے داموں بیچی جاتی ہیں۔ سانوفی کے ’ ادویات تک رسائی کے پروگرام‘ کے ایک اہلکار فرانسوا بومپارٹ کہتے ہیں،" یہ ویکسین کی دنیا میں بہت کارآمد رہتا ہے۔ جو ویکسین یورپ یا امریکا میں 50 یورو کی بکتی ہے اُسے افریقہ میں تین سے چار یورو میں بیچا جاتا ہے۔ درمیان میں برازیل، جنوبی افریقہ اور تھائی لینڈ جیسے ممالک ہیں۔ یہ ممالک اسی ویکسین کی قیمت 10 سے 20 یورو ادا کریں گے" ۔
ماہرین اس امر سے اتفاق کرتے ہیں کہ ادویات کی قیمتوں کا یہ نظام مہنگی دواؤں، خاص طور سے ایڈز اور کینسر کی دواؤں کی فراہمی کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ غریب اور ترقی پذیر ممالک میں مریض مہنگی دوائیں خریدنے میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ تاہم ادویات کی قیمتوں کا یہ نظام منطقہ حارہ یا گرم مرطوب علاقوں میں بالکل نہیں پایا جاتا۔ ان علاقوں میں پائی جانے والی بیماریوں کا وجود امیر ممالک میں بمشکل ملتا ہے۔ فرانسوا بومپارٹ یہ حقیقت تسلیم کرتے ہیں کہ ادویات ساز کمپنیاں کمرشل ہوتی ہیں جو سرمایہ ایسی جگہوں پر لگاتی ہیں جہاں سے انہیں منافع حاصل ہو۔
منطقہ حارہ یا گرم علاقوں کی بیماریاں جیسے کے ڈینگی بخار اور نیند سے منسلک بیماریاں شامل ہیں۔ ہارورڈ میڈیکل اسکول کی پروفیسر انیتا واگنر کے بقول،" ان بیماریوں کے خلاف نئی ادویات تیار کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے حکومتوں علمی مراکز اور ادویات ساز کمپنیوں کے مابین بہتر اشتراک عمل اور تعاون کی اشد ضرورت ہے"
عالمی ادارہ صت ڈبلیو ایچ او کے اہلکار Joe Kutzin کا ماننا ہے کہ بعض مریض سستی اور بہت کم قیمت دواؤں کو خریدنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ اس لیے حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ادویات کی فراہمی کو ممکن بنانے کے لیے ایک مالی نظام متعارف کرائیں تاکہ ادویات کی قیمتیں ادائیگی کے قابل ہوں۔ Joe Kutzin کے مطابق صحت کا بیمہ یا ہیلتھ انشورنس کو لازمی قرار دینا اس ضمن میں مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ الکوحل اور سگریٹ پر ٹیکس میں اضافہ کریں اور ان سے ہونے والی آمدن کو صحت کے فنڈز میں شامل کیا جائے۔
اُدھر فرانسیسی دوا ساز کمپنی ’سانوفی‘ کا کہنا ہے کہ،" تعیلم اور شعور کے بغیر ادویات بیکار ہیں۔ علاج کے لیے مریض کی عمومی صورتحال کے ساتھ ساتھ مرض کی تشخیص ضروری ہے اور اُس کے بعد ہی موثر علاج کیا جا سکتا ہے" ۔ فرانسیسی دوا ساز کمپنی کے فرانسوا بومپارٹ ڈاکٹروں اور نرسوں کی تربیت کو سب سے پہلی ضرورت قرار دیتے ہیں۔