1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کے 1000 گاؤں میں ’ہلدی تِلک‘ مظاہرہ

جاوید اختر، نئی دہلی
15 اکتوبر 2020

ہاتھرس میں 19سالہ دلت لڑکی کی اجتماعی جنسی زیادتی اورموت کے خلاف بھارت کے تقریباً 1000 دیہات میں خواتین نے پرامن مظاہرے کیے اورعلامتی طور پر ’ہلدی تلک‘ کی ہندومذہبی رسم ادا کی۔

https://p.dw.com/p/3jxzf
Indien l Proteste gegen Vergewaltigungen
تصویر: picture alliance/NurPhoto/S. Pal Chaudhury

 ہاتھرس میں گزشتہ ماہ جنسی زیادتی کا شکار لڑکی کی اترپردیش ریاستی انتظامیہ کی جانب سے خاموشی سے آخری رسومات اداکر دیے جانے کے خلا ف بطور احتجاج بدھ کے روز بھارت کی مختلف ریاستوں کے تقریباً ایک ہزار گاؤں میں ہندو خواتین نے علامتی 'ہلدی تلک‘ کی رسم ادا کی۔  ہندو رسم کے مطابق کسی غیر شادی شدہ خاتون کی موت کے بعد اسے نذر آتش یا دفن کرنے سے قبل اس کی لاش کو ہلدی لگائی جاتی ہے۔

’بھیم کنیا‘ کے بینر تلے بھارت کے چودہ ریاستوں میں یہ مظاہرے کیے گئے۔ جس میں بلا تفریق مختلف مذاہب کی خواتین نے حصہ لیا۔ اس موقع پر متوفی لڑکی کے نام پر ایک بینر تیار کیا گیا تھا جس پر لوگوں نے ہلدی ڈال کر آخری رسومات کی علامتی ادائیگی کی۔ خواتین نے لوگوں سے ہلدی ’دان‘ کرنے کی اپیل کی، جسے ایک ہنڈیا میں جمع کیا گیا۔ اسے اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ کو بھیجا جائے گا۔

اس حوالے سے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم اور بھارت کے منصوبہ بندی کمیشن کی سابق رکن سیدہ حمید نے ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”(ہاتھرس کی) اس بچی کے ساتھ جو اتنی بڑی زیادتی اور ناانصافی ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ غریب تھی، وہ دلت تھی، وہ بے زبان تھی۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ آئندہ کبھی بھی کسی بھی بچی کے ساتھ، کسی بھی لڑکی اور عورت کے ساتھ ایسا نا ہو۔"

آخری خواہش بھی پوری نہیں کی

سیدہ حمید نے بتایا کہ یہ عوامی بیداری کا پروگرام تھا۔ اس ہلدی تلک مہم کا ایک مقصد لوگوں میں خواتین اور ان کے خلاف ہونے والی زیادتیوں اور جرائم کے تئیں بیداری پیدا کرنا بھی تھا۔  ”ہمارے تو مذہب میں ہے کہ انسان کو اپنی کوشش سے کبھی باز نہیں آنا چاہیے۔ تو ہم کوشش کرتے رہیں گے۔ کبھی نہ کبھی تو یہ چٹان پگھلے گی نا۔"

 ہلدی جمع کرنے کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں سیدہ حمید کا کہنا تھا ”چونکہ ریاستی حکومت نے ایک دلت خاتون کی آخری رسومات کے وقت ادا کیے جانے والے مذہبی اور ثقافتی رسوم کا احترام نہیں کیا اس لیے ہلدی جمع کی گئی ہے۔ اسے یوپی کے وزیر اعلی کو سونپا جائے گا اور ان سے درخواست کی جائے گی کی اسے گنگا میں سپرد آب کردیں۔" 

اس عوامی بیداری پروگرام کے روح رواں مارٹن میکوان نے کہا کہ بھارت میں تو مجرموں کو بھی سزائے موت دینے سے پہلے ان کی آخری خواہش کا احترام کیا جاتا ہے۔ لیکن ہاتھرس کی لڑکی کے معاملے میں تو خود ریاست نے متاثرہ کو جلا دیا اور تمام اہم شواہد مٹا دیے۔

Demonstration gegen erneute Vergewaltigung in Indien
تصویر: UNI

مارٹن میکوان نے اپنے ایک بیان میں کہا ”نربھیا کیس کے مجرموں کو حتی کہ افضل گورو اوراجمل قصاب کی آخری خواہش کا احترام کیا گیا اور ان کی آخری رسومات ان کے مذہبی طریقوں کے مطابق ادا کی گئیں لیکن ہاتھرس کی متاثرہ خاتون جو نہ تو ملزم تھی، نہ کوئی مجرم اور نہ ہی کوئی دہشت گرد بلکہ وہ جنسی زیادتی کا شکار ہوئی تھی۔  اس کے باوجود اترپردیش کی حکومت نے اس کی والدہ کو نہ تو اپنی بیٹی کی لاش کا آخری دیدار کرنے دیا اور نہ ہی مذہبی رسوم کے مطابق اسے ہلدی لگانے کی اجازت دی۔ یہ ریاست کی طرف سے مذہبی حقوق کی ادائیگی سے محروم کرنے کی انتہائی سنگین خلاف ورزی ہے۔"

سیاسی قوت ارادی کی کمی

خیال رہے کہ بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ 2019 میں جنسی زیادتی کے 32022 کیس درج کیے گئے۔ یعنی یومیہ اوسطاً 88 خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔ بھارت کے حکومتی ادارے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کی رپورٹ کے مطابق 2019 میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین میں گیارہ فیصد انتہائی پسماندہ یعنی دلت طبقے سے تعلق رکھتی تھیں۔

قومی خواتین کمیشن کی سابق رکن سیدہ حمید کا کہنا ہے بھارت میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم اس لیے نہیں رک پارہے ہیں کیوں کہ یہاں سیاسی قوت ارادی کی کمی ہے۔ ”جب تک سیاسی قوت ارادی نہیں ہوگی، کچھ بھی نہیں ہونے والا۔ نربھیا واقعہ کے بعد ملک بھر میں کتنا بڑا طوفان اٹھا تھا۔ اس کے بعد ورما کمیشن بنا، کچھ قوانین بھی تبدیل کیے گئے اور خواتین کے خلاف زیادتی کے لیے سزائیں بھی تجویز کی گئیں لیکن صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔" 

انہوں نے مزید کہا کہ ہاتھرس معاملے میں تو حد یہ ہوگئی ہے کہ اب خود پولیس بھی کہہ رہی ہے کہ خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کا کوئی معاملہ ہی نہیں پیش آیا تھا۔ 'جوملزمین ہیں وہ اعلی ذات کے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سب سازش ہے لیکن دراصل یہ سب سیاست ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ رہنماوں میں سیاسی قوت ارادی کی کمی ہے۔"

خیال رہے کہ ہاتھرس میں 14ستمبر کو ہندووں کے اعلی ذات سے تعلق رکھنے والے چار ملزموں نے ایک 19سالہ لڑکی کی اجتماعی جنسی زیادتی کے بعد بری طرح مارا پیٹا۔ متاثرہ لڑکی کو پہلے ہاتھرس ضلع ہسپتال میں داخل کرایا گیا لیکن بعد میں دہلی کے ایک ہسپتال میں منتقل کردیا گیا۔ جہاں اس نے دم توڑ دیا۔ جس کے بعد پولیس نے بڑی خاموشی سے رات کے اندھیرے میں اس کی لاش جلادی۔

عدالت نے پولیس اور انتظامیہ کی اس رویے کی سخت سرزنش کی ہے جبکہ پورے معاملے کی تفتیش سی بی آئی کررہی ہے۔ تاہم سی بی آئی کو آج اس وقت زبردست دھچکا لگا جب ہاتھرس ضلع ہسپتال کی انتظامیہ نے بتایا کہ اس کے پاس متاثرہ لڑکی کے ہسپتال میں علاج کا ویڈیو فوٹیج موجود نہیں ہیں۔ چیف میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کا کہنا ہے ”چونکہ پولیس یا انتظامیہ نے ہمیں فوٹیج محفوظ رکھنے کے لیے نہیں کہا تھا اس لیے اسے ایک ہفتے بعد ڈیلیٹ کردیا گیا۔ اب ایک ماہ بعد ہم کوئی فوٹیج فراہم نہیں کرسکتے۔"

پاکستان: مدارس میں بچوں کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کے واقعات

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں