اتحاد کے 28 برس بعد بھی مشرقی اور مغربی جرمنی میں واضح فرق
26 ستمبر 2018جرمن دارالحکومت برلن سے بدھ چھبیس ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ سرکاری رپورٹ چانسلر انگیلا میرکل کی قیادت میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں پیش کی گئی اور کابینہ کے ارکان نے اس کی منظوری بھی دے دی۔
ہر سال تین اکتوبر کو منائی جانے والی جرمن اتحاد کی سالگرہ سے قریب ایک ہفتہ قبل پیش کردہ اس رپورٹ میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ ماضی کی مشرقی حصے پر مشتمل اور کمیونسٹ نظام حکومت والی جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک کے مغربی حصے پر مشتمل اور جمہوری نظام حکومت والی وفاقی جمہوریہ جرمنی کے ساتھ دوبارہ اتحاد کے بعد متحدہ جرمنی کے مل کر ترقی کرنے کے عمل کی موجودہ صورت حال کیا ہے۔
اس رپورٹ میں سامنے آنے والے حقائق میں سے اہم ترین یہ بات ہے کہ ’مشرق‘ اور ’مغرب‘ کے مابین ابھی تک کئی شعبوں میں واضح فرق پایا جاتا ہے اور قریب تین عشرے قبل اتحاد کے بعد سے خاص طور پر مقامی آبادی کی ہیئت میں آنے والی تبدیلیاں مشرقی جرمنی کے لیے ابھی تک دباؤ کا باعث بن رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ 28 برسوں کے دوران سابقہ مشرقی جرمنی میں بہت زیادہ اقتصادی ترقی ہوئی ہے اور وہاں کی صورت حال مغربی حصے کے حالات کے قریب تر آ چکی ہے۔ اس رپورٹ کو، جو ہر سال تیار کی جاتی ہے، ’اسٹیٹ آف جرمن یونٹی‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
امسالہ رپورٹ کے مطابق مشرقی حصے کی مجموعی اقتصادی طاقت اور وہاں کارکنوں کی تنخواہیں ابھی تک مغربی حصے سے کم ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی کے کئی بڑے بڑے کاروباری اداروں کے صدر دفاتر مغربی حصے میں زیادہ ہیں اور مشرقی حصے میں کم۔ مزید یہ کہ جرمنی سے جو بھی پیداواری یا تجارتی مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں، ان میں متناسب حوالے سے بھی مشرقی جرمنی میں تیار کردہ مصنوعات کی شرح مغربی حصے میں تیار کردہ مصنوعات کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔
یہ رپورٹ جرمن وزارت اقتصادیات میں ریاستی امور کے سیکرٹری اور مشرقی جرمن صوبوں کے لیے وفاقی حکومت کے مقرر کردہ نگران اہلکار کرسٹیان ہِرٹے نے تیار کی ہے اور وہی آج بدھ چھبیس ستمبر کے روز یہ رپورٹ سرکاری طور پر جاری کر رہے ہیں۔
تین اکتوبر 1990ء کو عمل میں آنے والے جرمن اتحاد کے بعد 90ء کی دہائی میں یہ بھی دیکھنے میں آیا تھا کہ نئے مشرقی صوبوں سے بہت سے نوجوان اور تعلیم یافتہ شہریوں نے روزگار اور رہائش کے لیے پرانے مغربی صوبوں میں منتقل ہونا شروع کر دیا تھا۔ اس وجہ سے وہاں مقامی آبادی میں مسلسل کمی کے علاوہ بچوں کی شرح پیدائش بھی بہت کم ہو گئی تھی۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ نئے مشرقی صوبوں میں بچوں کی شرح پیدائش تو دوبارہ کچھ زیادہ ہوئی ہے تاہم وہاں کی مجموعی آبادی اور خاص طور پر کام کاج کی عمر کے شہریوں کی تعداد میں ابھی تک کمی ہو رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’’یہ حقائق نئے وفاقی صوبوں کی مجموعی اقتصادی طاقت اور وہاں عمومی حالات زندگی پر کئی طرح سے اثر انداز ہو رہے ہیں۔‘‘
کرسٹیان ہِرٹے کے مطابق برلن میں وفاقی حکومت کا پختہ ارادہ ہے کہ وہ مشرقی صوبوں میں پائی جانے والی اہم ڈھانچوں کی کمزوریوں کے تیز رفتار خاتمے کے لیے آئندہ بھی کام کرتی رہے گی۔ سابقہ مشرقی جرمنی کے وہ علاقے یا بڑے شہر جہاں خاص طور پر تیز رفتار ترقی اور زیادہ خوشحالی دیکھنے میں آ چکی ہیں، ان میں برلن اور اس کے گرد و نواح کے علاقے، لائپزگ، ڈریسڈن اور ایرفُرٹ جیسے شہر نمایاں ہیں۔
جرمنی کے مشرقی اور مغربی حصوں کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ سیاسی اور پارلیمانی طور پر وفاقی جرمنی میں اب مشرقی اور مغربی کی بنیاد پر کوئی تقسیم نہیں ہے بلکہ سابقہ مشرقی جرمنی کے صوبوں کو نئی وفاقی ریاستیں اور سابقہ مغربی جرمنی کے صوبوں کو پرانی وفاقی ریاستیں کہا جاتا ہے۔
م م / ا ا / اے ایف پی