1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسام میں کشیدگی کے مدنظر سکیورٹی سخت

30 اگست 2019

بھارتی ریاست آسام میں شہریوں کی متنازعیہ فہرست کے اجراء سے پہلے سکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی ہے۔ خدشات ہیں کہ اس لسٹ میں حکام نے وہاں نسلوں سے آباد لاکھوں لوگوں کو نظرانداز کردیا ہے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔

https://p.dw.com/p/3Ok8A
Indien Unruhen in Assam zwischen Bodo-Volksgruppe und muslimischen Siedlern
تصویر: Reuters

 

کسی ممکنہ گڑبڑ کے پیش نظر حکام نے سترہ ہزار اضافی اہلکاروں کو مختلف مقامات پر تعینات کر دیا ہے۔ حکام نے سوشل میڈیا پر ’سائبر کرائمز‘ کے ارتکاب کے تناظر میں انٹرنیٹ کی نگرانی بھی سخت کر دی ہے۔

ریاست آسام کے شہریوں کے اندراج کے قومی دفتر این آر سی نے ریاستی شہریوں کی سن 1951 میں مرتب کی گئی فہرست کو اپ ڈیٹ کرنے کا سلسلہ سن 2014 میں شروع کیا تھا۔ مبصرین کے مطابق نئی لسٹ میں بیس سے چھبیس لاکھ لوگوں کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ 

بھارت میں ہندو قوم پرست نظریے کی حامل مودی حکومت کے نزدیک یہ لوگ بنگلادیش اور دیگر ملکوں سےغیرقابونی طور پر آ کر بھارت میں آباد ہیں۔ 

Indien National Register of Citizens | Assam, Einsicht in Entwurf
گزشتہ برس جولائی میں جاری کیے گئے رجسٹر میں چالیس لاکھ افراد کے نام شامل نہیں تھےتصویر: Reuters

گزشتہ برس جولائی میں جاری کیے گئے رجسٹر میں چالیس لاکھ افراد کے نام شامل نہیں تھے۔ مزید افراد کے دعووں کی تصدیق کی تکمیل کے بعد لاکھوں افراد ابھی تک بھارتی شہریت سے محروم رکھے گئے ہیں۔ سماجی ماہرین کے مطابق یہ صورت حال آسام میں افراتفری اور خون خرابے یا معاشرتی عدم استحکام کا سبب بن سکتی ہے۔ مزید یہ کہ بھارتی شہریت سے محروم رہ جانے والے ان لاکھوں افراد کے مستقبل کے بارے میں کچھ بھی کہنا فی الحال بہت مشکل ہے۔

قومی رجسٹر کو مکمل کرنے میں پانچ برس کا عرصہ لگا اور پہلے سے پائی جانے والی تذبذب کی صورت حال اب بھی قائم ہے۔ مجاز ریاستی ادارے انتشار کی اس کیفیت کا تدارک نہیں کر سکے۔ پانچ سالہ عمل کے بعد بھی برسوں سے اس شمال مشرقی بھارتی ریاست میں زندگی بسر کرنے والے لاکھوں غیرقانونی تارکین وطن کا مستقبل بدستور تاریک ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ کے سن 2014 میں سنائے گئے ایک فیصلے کی روشنی میں ریاست آسام کے سن 1951 میں مرتب کیے گئے شہریوں کے رجسٹر کو اپ ڈیٹ کیا گیا۔ ریاست کے حکام نے رواں برس یکم اگست کو تمام اضلاع میں نئے شہریوں اور غیر قانونی افراد کے اخراج کا ڈیٹا عام کر دیا تھا۔

Indien National Register of Citizens | Assam, Einsicht in Entwurf
قومی رجسٹر کو مکمل کرنے میں پانچ برس کا عرصہ لگا اور پہلے سے پائی جانے والی تذبذب کی صورت حال اب بھی قائم ہے۔تصویر: Getty Images/AFP/B. Boro

نئے ڈیٹا کے مطابق سب سے زیادہ افراد کے ناموں کا اندراج ہندو اکثریتی ضلع ہوجائی میں کیا گیا اور اضافے کی یہ شرح تینتیس فیصد کے لگ بھگ تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ مسلم اکثریتی آبادی والے کئی اضلاع میں نئے شہریوں کے اندراج کی شرح انتہائی کم ہے۔

حتمی فہرست کے اعلان کے بعد این آر سی میں اندراج سے  محروم رہ جانے والے تمام افراد کو خارج کیے جانے کا پروانہ دینے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ ناموں کے اندراج سے محروم افراد کو چار ماہ کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ مجاز ادارے (فارنرز ٹریبیونل) میں پہنچ کر اور ذاتی حیثیت میں نام کے اندراج کی اپیل کر سکتے ہیں۔ اپیل کامیاب ہونے کی صورت میں اس فرد کا نام ریاست کے شہریوں کی حتمی فہرست میں شامل کر دیا جائے گا۔

سوریتا شبنم (عابد حسین)

بھارت: کئی ملین آسامی مسلمانوں کو ملک بدری کا خوف