1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آخری ’دہشت گرد‘ کے خاتمے تک کارروائی جاری رہے گی، بشار الاسد

14 مارچ 2018

شامی صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ جب تک ملکی سرزمین پر ایک بھی ’دہشت گرد‘ موجود ہے، دہشت گردی کے خلاف حکومتی جنگ جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا ہے کہ ملکی سالمیت اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/2uJJ4
Syrien Präsident Assad - Rede vor Diplomaten in Damaskus
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Syrian Presidency

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے میڈیا رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ شامی صدر بشار الاسد نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک سرزمین سے تمام ‘دہشت گردوں‘ کا خاتمہ نہیں کر دیا جاتا۔ اسد کا یہ پیغام صدر دفتر کے سرکاری چینل ٹییلگرام پر بدھ کے دن جاری کیا گیا ہے۔

شامی تنازعہ، غیر ملکی طاقتیں کیا چاہتی ہیں؟

مشرقی غوطہ میں شامی دستوں کی بڑی کامیابی

مشرقی غوطہ میں امدادی سامان کی ترسیل، جنگی کارروائی جاری

مشرقی غوطہ میں مزید تیس روز تک فائربندی کے مطالبے کی تجویز

اس بیان میں بشار الاسد نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ ’مغرب کے اس پراپیگنڈے کا بھی مقابلہ کریں گی، جس میں ملکی خودمختاری اور سالمیت کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘۔ بشار الاسد کا مزید کہنا تھا کہ ساتھ ہی ’دہشت گردوں‘ کے خلاف کارروائی بھی جاری رکھی جائے گی۔

شامی صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب مشرقی غوطہ میں حکومتی فورسز کامیاب پیشقدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دمشق کے اس نواحی علاقے میں ملکی فوج نے روسی عسکری تعاون اور حامی ملیشیا گروہوں کی مدد سے باغیوں کے خلاف مؤثر کارروائی کی ہے۔ اس عسکری مہم کے نتیجے میں حکومتی فورسز کئی اہم مقامات کو بازیاب کرانے میں بھی کامیاب ہو گئی ہیں۔

سرکاری میڈیا کے مطابق مشرقی غوطہ میں پھنسے شہریوں کے انخلاء کی خاطر شامی فوج نے کارروائی شروع کر دی ہے۔ ایک سرکاری ٹیلی وژن پر بدھ کو نشرکردہ ویڈیو رپورٹوں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچوں اور خواتین کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔

سیریئن آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ شامی فورسز نے مشرقی غوطہ کو عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک حصے کا کنٹرول شامی فوج نے سنبھال لیا ہے جبکہ دوسرے حصے میں باغی اب بھی مزاحمت دیکھا رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ باغیوں کے زیر قبضہ علاقے میں اب بھی کم از کم دو لاکھ شہری پھنسے ہوئے ہیں، جنہیں فوری مدد کی ضرورت ہے۔

رواں ہفتے ہی شامی بحران آٹھویں برس میں داخل ہو گیا ہے۔ مارچ سن ہزار گیارہ میں بشار الاسد کے خلاف پرامن مظاہرے شروع ہوئے تھے تاہم دمشق حکومت کی طرف سے طاقت کے استعمال کے بعد پرتشدد کارروائیاں شروع ہو گئیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شام بھر خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا۔ اس وقت اس خانہ جنگی میں نہ صرف علاقائی بلکہ بین الاقوامی فریق بھی شامل ہو چکے ہیں۔ اس بحران کے نتیجے میں شام اجڑ چکا ہے جبکہ دنیا بھر سے جنگجو عناصر اس ملک میں فعال ہو چکے ہیں۔

واضح رہے کہ بشار الاسد کی حکومت شام میں فعال سبھی باغیوں کو بلاتخصیص ’دہشت گرد‘ قرار دیتی ہے۔ بشار الاسد کا دعویٰ ہے کہ امریکا، یورپی یونین، خلیجی ممالک اور ترکی شام کو تقسیم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس آٹھ سالہ خانہ میں البتہ ایران اور روس دمشق حکومت کی بڑی حامی ریاستیں ہیں۔ انہی دونوں ممالک کی مدد کے باعث بشار الاسد کی حامی افواج مشرقی غوطہ سمیت ملک کے متعدد علاقوں سے باغیوں اور انتہا پسندوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

ع ب / اے پی