آبروریزی کا واقعہ، بھارت میں ’اوبر‘ کے خلاف کریک ڈاؤن
10 دسمبر 2014خبر رساں ادارے روئٹرز نے نئی دہلی سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ حکومت نے ریاستی حکومتوں کو احکامات جاری کر دیے ہیں کہ وہ ایسی تمام انٹرنیٹ ٹیکسی سروسز کو بند کرا دے، جو باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے منگل کے دن پارلیمان میں کہا کہ ایسی کمپنیوں کو اس وقت تک پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا جب تک وہ باقاعدہ طور پر متعلقہ حکومتی اداروں کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہوتیں۔
یہ پیشرفت ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب نئی دہلی کی ایک خاتون نے امریکی ٹیکسی کمپنی ’اوبر‘ کے کانٹریکٹر ڈارئیور شیو کمار یادیو پر آبروریزی کا الزام عائد کیا۔ اس خاتون کا کہنا ہے کہ جمعے کی رات اس نے سمارٹ فون ایپلیکیشن کے ذریعے ٹیکسی آرڈر کی تھی اور اس ٹیکسی کے ڈرائیور نے ایک سنسان جگہ لے جا کر اس کی عزت لوٹ لی۔
بھارت میں آبرویزی کے اس تازہ واقعے کے بعد وہاں ایک مرتبہ پھر غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق شیو کمار یادیو پہلے بھی آبرویزی کے ایک واقعے میں ملوث پایا گیا تھا تاہم اس نے پولیس سے جعلی کریکٹر سرٹیفکیٹ حاصل کر کے ’اوبر‘ کے ساتھ کانڑیکٹ کر لیا تھا۔ منگل کو یادیو عدالت میں پیش کیا گیا اور بعد ازاں اسے تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا۔
اس واقعے نے بھارت میں انٹر نیٹ ٹیکسی سروسز کے لیے قواعد و ضوابط نہ بنا سکنے پر بھی ایک بحث شروع کر دی ہے۔ نئی دہلی کے ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ نے امریکی کمپنی ’اوبر‘ کے ساتھ تمام دیگر ایسی غیر رجسٹرڈ کمپنیوں کے آپریشنز پر پابندی عائد کر دی ہے، جو انٹرنیٹ کے ذریعے کام کرتی ہیں۔ تاہم اطلاعات ہیں کہ وہاں یہ سروسز اب بھی فعال ہے۔ ’اوبر‘ کے ترجمان نے کہا ہے کہ کمپنی کو ابھی تک ایسا کوئی باقاعدہ نوٹیفکیشن نہیں ملا ہے کہ نئی دہلی میں اس کے آپریشنز پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
دوسری طرف منگل کے دن ہی تھائی لینڈ کے ٹڑانسپورٹ حکام نے اس امریکی کپمنی کو حکم دے دیا کہ وہ ملک میں اپنے آپریشنز روک دے۔ حکومت کے مطابق ایسے ڈرائیور جو اوبر کے ذریعے مسافروں کو خدمات فراہم کر رہے ہیں، وہ نہ تو بطور ٹیکسی ڈرائیور رجسٹرڈ ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کمرشل لائسنس ہے۔
اسی طرح یورپی ملک اسپین میں بھی ایک عدالت نے اوبر پر پابندی عائد کر دی ہے۔ میڈرڈ میں لوکل ٹیکسی ڈرائیوروں نے اس کمپنی کے خلاف کیس دائر کیا تھا کہ انہیں ایسی انٹر نیٹ کمپنیوں سے ناجائز مقابلے کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ انٹر نیٹ کے ذریعے کام کرنے والی یہ کمپنیاں مسافروں سے کم پیسے لیتی ہیں، اس لیے عوام روایتی ٹیکسیوں کے مقابلے میں سمارٹ فون ایپلیکشنز یا انٹر نیٹ کے ذریعے کام کرنے والی کمپنیوں کی خدمات لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔
امریکی شہر شکاگو میں بھی اس کمپنی کے ایک کانٹریکٹر ڈرائیور کو ایک خاتون کی آبروریزی کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔ اوبر کپمنی نے ان تمام کیسوں میں متعلقہ حکام کے ساتھ بھرپور معاونت کرنے کا عہد ظاہر کیا ہے۔