آئی فون کی خفیہ معلومات، فیس بُک اور ٹوئٹر بھی ایپل کے ساتھ
19 فروری 2016خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹد پریس کے مطابق ایک امریکی مجسٹریٹ نے ایپل کمپنی کو حکم دیا تھا کہ وہ امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کو وہ سافٹ ویئر فراہم کرے جس کی مدد سے وہ مطلوبہ آئی فون سے معلومات حاصل کر سکے۔ ایپل کمپنی کے پاس منگل 25 فروری تک کا وقت ہے کہ وہ اس فیصلے کو چیلنج کر سکتی ہے جس سے ایک ایسی قانونی جنگ شروع ہو گی جو اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ صارفین کے زیر استعمال اسمارٹ فونز یا دیگر ڈیوائس کس حد تک محفوظ ہوں گی یا یہ کمپنیاں صارفین کی پرائیویسی کو کس حد تک محفوظ رکھیں گی۔
ایپل کمپنی کے سی ای او ٹِم کُک نے اس عدالتی حکم کے حوالے سے کہا ہے کہ اس سے آئی فون کی سکیورٹی کم ہو جائے گی اور جاسوسوں اور سائبر چوروں کے لیے آئی فون کے صارفین کے ڈیٹا تک رسائی آسان ہو جائے گی۔
ٹوئٹر کے سربراہ جیک ڈورسی نے ایپل کمپنی کے فیصلے کے حق میں کھڑے ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ ڈورسی کی طرف سے جمعرات 18 فروری کی شام اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا گیا، ’’ہم ٹِم کُک اور ایپل کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی لیڈرشپ پر ان کے شکر گزار رہیں۔‘‘
جمعرات ہی کے روز فیس بُک کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں دہشت گردی کی مذمت کی گئی ہے اور قانون نافذ کرنے والی کمپنیوں کی طرف سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کی تعریف بھی کی گئی ہے۔ لیکن بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے سسٹمز کی سکیورٹی کم کرنے کے لیے خلاف ’جارحانہ لڑائی‘ لڑیں گے۔ بیان میں کہا گیا ہے، ’’یہ مطالبات خوفناک مثال بنیں گے اور اپنی مصنوعات کو محفوظ بنانے کے حوالے سے کمپنیوں کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے۔‘‘
گوگل کے سربراہ سُندر پچائی بھی اپنے ٹوئیٹس میں ایپل کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔ بدھ 17 فروری کو اپنے ایک ٹوئٹ میں پِچائی کا کہنا تھا، ’’ہیکنگ ممکن بنانے پر کمپنیوں کو مجبور کرنے سے صارفین کی پرائیویسی متاثر ہو سکتی ہے۔‘‘ پچائی کے مطابق یہ مقدمہ ’ایک پریشان کن مثال ثابت ہو سکتا ہے‘۔
ایسوسی ایٹد پریس کے مطابق امریکی حکومت ایپل کمپنی سے یہ نہیں کہہ رہی کہ وہ براہ راست آئی فون کے خفیہ ڈیٹا تک رسائی دے بلکہ بعض ایسے سکیورٹی اقدامات کو کم کر دے جو فون کے پاس کوڈ کا اندازہ لگانے کی کسی کوشش کو ناکام بناتے ہیں۔
منگل کے روز کُک نے ایک طویل کھُلا خط تحریر کیا تھا جس میں واضح کیا گیا تھا کہ ایف بی آئی کی طرف سے کی گئی درخواست پر عملدرآمد کے اثرات ’موجودہ قانونی مقدمے سے کہیں زیادہ‘ ثابت ہو سکتے ہیں۔