آئفل ٹاور کو سالگرہ مبارک
فرانسیسی دارالحکومت میں ایک سو تیس سال قبل آئفل ٹاور کا افتتاح ہوا تھا۔ آج یہ پیرس کی ایک شناخت بن چکا ہے۔ جب اس کی تعمیر شروع ہوئی تھی تو اس کے خلاف شدید احتجاج بھی کیا گیا تھا۔
ایک مقناطیس
ہر سال اس فن تعمیر کو دیکھنے کے لیے سات ملین سیاح آتے ہیں۔ اس طرح دنیا میں سب سے زیادہ سیاح اسی شاہکار کو دیکھنے آتے ہیں۔
غیر معمولی
آئفل ٹاور کی بلندی تین سو میٹر سے زائد ہے۔ اپنے افتتاح کے وقت یہ دنیا کی سب سے اونچی عمارت تھی۔ اسے 1889ء کے عالمی میلے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ منصوبے کے مطابق اسے بیس سال بعد منہدم کر دیا جانا تھا۔ تاہم عسکری مواصلاتی آلات اور موسمیاتی آلات کی تنصیب کی وجہ سے یہ منہدم کیے جانے سے بچ گیا۔
جرات و حوصلہ
آئفل ٹاور انجینیئر الیگزانڈر گستاف کا شاہکار ہے۔ اس پر 7.8 ملین فرانک کی لاگت آئی تھی اور زیادہ تر اخراجات گستاف نے ہی برداشت کیے تھے۔ تاہم افتتاح کے بعد پہلے ہی برس کے دوران بڑی تعداد میں سیاحوں کی آمد سے ہونے والی آمدنی کی وجہ سے گستاف اپنے اخراجات پورے کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
معمہ
آئفل ٹاور کی تیاری میں اٹھارہ ہزار آہنی ٹکڑے اور پچیس لاکھ میخیں یا کیلیں استعمال ہوئی ہیں اور اس کا وزن دس ہزار ٹن سے زائد ہے۔ ہر سات سال میں اسے نیا رنگ کیا جاتا ہے اور اس کام پر تقریباً ڈیڑھ سال لگتے ہیں۔
تعمیر
آئیفل ٹاور کو مکمل ہونے میں دو سال اور دو مہینے کا عرصہ لگا تھا۔ پیرس میں فن کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے اس آہنی مینار پر تنقید کی تھی۔ اکتیس مارچ 1889ء کو اس کے افتتاح کے موقع پر تمام تر احتجاج ختم ہو چکے تھے۔
قومی شناخت
ہر شام آئفل ٹاور پر بیس ہزار برقی قمقمے روشن ہوتے ہیں۔ خصوصی مواقعوں پر تو اس مینار کو مختلف انداز میں روشن کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر چودہ جولائی کو منائے جانے والے قومی دن، فرانسیسیوں کے من پسند گلوکار جونی ایلیدے کی یوم وفات اور 2016ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد یہاں علامتی طور پر چراغاں کیا جاتا ہے۔
آئفل ٹاور سر کرنا
یہ تصویر فرانسیسی ماؤنٹین بائکر ہوگ ریشرڈ کی ہے۔ ان کے علاوہ کوہ پیماؤں، کراس موٹر سائیکلسٹ اور بنجی جمپ کرنے والوں نے بھی اپنے چیلنجز پورا کرنے اور نئے ریکارڈ بنانے کے لیے آئفل ٹاور کا انتخاب کیا۔
آسمان اور زمین کے درمیان
آئفل ٹاور کی چھت پر پہنچنے والے سیاح پیرس میں نہیں بلکہ اس شہر کے اوپر ہوتے ہیں۔ یہ منظر دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح آئفل ٹاور کی تقریباً سترہ سو سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ٹاور میں پانچ مختلف لفٹس بھی نصب ہیں۔
آئفل ٹاور کی جاذبیت
آئفل ٹاور سے غروب آفتاب کا منظر انتہائی متاثر کن ہوتا ہے۔ اس منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے سیاحوں کی بڑی تعداد اس ٹاور کی چھت پر سورج کے غروب ہونے کا انتظار کرتی ہے۔ آئفل ٹاور کے بغیر پیرس ناقابل تصور۔۔