ISI کے سربراہ احمد شجاع پاشا کی بھی طلبی
25 نومبر 2010ان میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا کے علاوہ پاک فوج کے چند سینئر اہلکاروں ، لشکر طیبہ کے سابق امیر حافظ محمد سعید اور ان کے چند دیگر ساتھی شامل ہیں، جنہیں طلبی کے نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیر قانون اور بین الاقوامی قانون کے ماہر ایس ایم ظفر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ امریکی قانون کے مطابق امریکی شہریوں کو دیوانی نوعیت کے ایسے دعوے دائر کرنے کا اختیار تو ہے لیکن ایسی قانونی کارروائی کی نتیجہ خیز کامیابی کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔ ان کے مطابق اس دعوے میں ٹھوس شواہد کی بجائے محض اخباری الزامات کا اعادہ کر کے ہرجانہ طلب کیا گیا ہے۔ ان کے بقول اگر شواہد کی عدم موجودگی میں یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے یہ دعوی منظور بھی کر لیا جائے تب بھی اسکی قانونی حیثیت متنازعہ رہے گی۔ ان کے مطابق یہ معاملہ لیبیا کے طیارے پر حملے اور اسکے ہرجانے والے مقدمے سے بہت مختلف ہے۔
ایس ایم ظفر کا کہنا ہے کہ پاکستانی شہریوں کے لئے زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ وہ اس مقدمے کا جواب داخل کر کے اپنا نام اس مقدمے سے خارج کروا لیں تاہم انہیں اس عدالت کے سامنے پیش ہونے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق ہرجانے کے اس دعوے کے پیچھے کوئی لابی پاکستان کو بدنام کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے، ان کے خیال میں امریکی حکومت اس عدالتی کارروائی کی حمایت سے گریز کرے گی۔
پاکستان کالج آف لاء کے پرنسپل ہمایوں احسان کا کہنا ہے کہ اگر ڈرون حملوں میں مارے جانے والے معصوم لوگوں اور امریکی حکومتوں کے ایماء پر غائب کر دئے جانے والے پاکستانی شہریوں کے رشتہ داروں نے بھی امریکیوں کے خلاف ہرجانے کے دعوے دائر کرنا شروع کر دئے تو یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جائے گا کہ بات کہاں جا کر ختم ہو گی۔ ان کے مطابق بظاہر یہ درخواست پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی ایک کوشش لگتی ہے ۔ پاکستان کے آئینی ماہرین کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد مقدمہ ہے جس میں واقعہ ممبئی(بھارت) میں ہوا، عدالتی کارروائی امریکہ میں ہو رہی ہے اور ہرجانہ پاکستان کے شہریوں سے طلب کیا جا رہا ہے۔ بار بار کوشش کرنے کے باوجود آئی ایس پی آر اور لشکر طیبہ کے رہنماؤں کا موقف نہیں مل سکا۔
رپورٹ: تنویر شہزاد،لاہور
ادارت: کشور مصطفیٰ