یونیسیف: 370 ملین سے زیادہ لڑکیاں جنسی تشدد کا شکار ہیں
10 اکتوبر 2024اس سال 11 اکتوبر بروز جمعہ منائے جانے والے 'انٹر نیشنل گرلز ڈے‘ سے ایک روز قبل یونیسف کی جانب سے بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے پہلے 'عالمی تخمینے‘ پر مشتمل رپورٹ شائع کی گئی۔ اس رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ دنیا بھر میں 18 سال کی عمر سے پہلے ریپ یا جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکیوں کی تعداد 370 ملین سے زیادہ ہے۔
یونیسیف کے رپورٹ میں شامل اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں ہر آٹھ میں سے ایک لڑکی کسی نا کسی شکل میں جنسی زیادتی کی شکار ہوئی ہے۔ اگر ان اعداد و شمار میں جنسی تشدد کے زمرے میں آنے والے آن لائن یا زبانی تشدد کو بھی شامل کیا جائے تو ان کا شکار ہونے والی لڑکیوں اور نوجوانوں خواتین کی تعداد دنیا بھر میں 650 ملین تک پہنچتی ہے۔ جس کا مطلب ہوا ہر پانچ میں سے ایک لڑکی اس تشدد کا شکار ہوئی۔
بھارت: دھرم گرو پر کمسن بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزامات
چند مخصوص حالات ایسے ہیں جن میں جنسی زیادتی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اس کی صورتحال خرب تر نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر ان افراد کے لیے جو اقوام متحدہ کی امن فوج جیسے کمزور ادارے میں کام کرتے ہیں یا بہت سے مہاجرین جو تشدد اور عدم تحفظ سے فرار اختیار کرتے ہیں۔ ان حالات میں ریپ اور جنسی حملوں کے متاثرین کی تعداد مزید بڑھ جاتی ہے۔ یعنی ہر چار میں سے ایک جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے۔
بچوں کو جنسی استحصال سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟
نو عمر لڑکے اور نوجوان بھی متاثر
بہبود اطفال کے ادارے یونیسیف کے مطابق لڑکے اور نوجوان بھی جنسی تشدد سے متاثر ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 240 سے 310 ملین لڑکے یا تقریباً ہر 11 میں سے ایک نوجوان لڑکا اپنے بچپن میں جنسی زیادتی کے شکار ہونے کے تجربے سے گزرا ہوتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق زیادہ تر جنسی تشدد نابالغوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایسی زیادتیوں میں غیر معمولی اضافہ 14 تا 17 سال تک کی عمر عمردرمیان دیکھنے میں آتا ہے۔
یورپی یونین: ’ریپ‘ کی تعریف پر اختلاف رائے
ہر معاشرہ اور جغرافیائی خطہ متاثر
اقوام متحدہ کی ایجنسی کے مطابق بچوں کے خلاف جنسی تشدد ہر جگہ پایا جاتا ہے۔
جغرافیائی، ثقافتی اور اقتصادی حدود سے ماورا۔ سب سے زیادہ متاثرہ خطہ سب صحارا افریقہ ہے، جہاں جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی نوجوان لڑکیوں اور خواتین کی تعداد 79 ملین یا آبادی کا 22 فیصد ہے۔
اس کے بعد نمبر جنوب مشرقی ایشیا کا ہے جہاں متاثرہ لڑکیوں کی تعداد 75 ملین یا 8 فیصد بنتی ہے۔ وسطی اور جنوبی ایشیا میں 73 ملین یا 9 فیصد اور یورپ اور شمالی امریکہ میں 68 ملین یا 14فیصد ہے۔
کیا بھارت میں جنسی زیادتی ایک عام سی بات ہے؟
واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار یونیسیف کی طرف سے 2010 ء اور 2022 ء کے دوران 120 ممالک اور علاقوں سے اکٹھا کیے گئے۔
تام ان اعداد و شمار میں سقوم بھی پائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر لڑکوں کے جنسی تشدد کے تجربات اور غیر جسمانی جنسی تشدد کی مختلف اشکال اور نوعیت کے بارے واضح اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔
یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''بچوں کے خلاف جنسی تشدد ہماری اخلاقیات پر ایک دھبہ ہے۔‘‘
جنسی زیادتی کا سامنا کرنے والے بچوں اور کم عمروں کی ذہنی حالت کے بارے میں ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس صدمے کے ساتھ اپنی جوانی میں داخل ہوتے ہیں۔ کیتھرین رسل کے بقول، ''جنسی زیادتی گہرے اور دیرپا صدمے کا سبب بنتی ہے کیوں کہ اس کا ارتکاب عموماً ان لوگوں کی طرف سے کیا جاتا ہے جنہیں وہ جانتے اور ان پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ان سے بچوں کو ایسی جگہوں پر یہ صدمہ پہنچتا ہے جہاں انہیں خود کو محفوظ محسوس کرنا چاہیے۔‘‘
الیزابیتھ شوماخر/ ک م / ش ح