35 سفارت کاروں کی بے دخلی، روس کا ’انتقامی کارروائی‘ کا عزم
30 دسمبر 2016جمعرات کے روز امریکی صدر باراک اوباما نے اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ میری لینڈ اور نیویارک میں واقع دو روسی کمپاؤنڈز کو جاسوسی سے متعلق سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا گیا اور اسی وجہ سے انہیں بند کر دیا جائے گا۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹوں کے مطابق ان روسی سفارت کاروں کو جمعے کی دوپہر بارہ بجے تک ان عمارتوں میں داخل ہونے کی اجازت ہے۔
امریکی وزارت خارجہ نے روس کے پینتیس سفارت کاروں کو جاسوسی کی سرگرمیوں میں ’ملوث‘ قرار دیتے ہوئے ’ناپسندیدہ شخصیات‘ قرار دے دیا تھا۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ان سفارت کاروں کو 72 گھنٹوں کے اندر اندر امریکا سے نکل جانا ہوگا۔ واشنگٹن نے روسی فوج کے اہم انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ (جی آر یو) پر الزام لگایا ہے کہ اس نے امریکی انتخابات میں مداخلت کرنے کے ارادے سے مختلف ویب سائٹس اور ای میل اکاؤنٹس ہیک کیے اور اس عمل میں اسے روسی فیڈرل سکیورٹی سروس (ایف ایس بی) کی مدد بھی حاصل رہی۔
اس کے علاوہ بھی امریکی اداروں ہوم لینڈ سکیورٹی اور ایف بی آئی نے ایک انتہائی تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں کس طرح روس نے اہم سیاسی ویب سائٹس ہیک کر کے مداخلت کی۔ امریکی صدر کہہ چکے ہیں کہ روس کو اس مداخلت کے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
ماسکو حکومت نے ان امریکی الزامات کو ’بے بنیاد‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کے ان اقدامات کے خلاف ’انتقامی کارروائی‘ کی جائے گی۔ جمعرات کو رات گئے کریملن کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ پابندیاں عائد کرنے کی صورت میں ’’روس کے ساتھ امریکی سفارتی تعلقات تباہ ہو جائیں گے۔‘‘ امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس کے ساتھ مستقبل میں بہتر تعلقات رکھنے کا اعلان کر چکے ہیں لیکن سرکردہ اور معروف ریپبلکنز رہنماؤں نے صدر اوباما کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔
ریپبلکن سینیٹر جان مکین اور لنڈسے گراہم نے اشارتاﹰ کہا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے ہی اس بات پر زور دیں گے کہ ’’روس کے خلاف پابندیوں کو مضبوط‘‘ بنایا جائے۔ تاہم ماسکو کی طرف سے بھی یہی کہا گیا ہے کہ وہ جوابی کارروائی کرنے سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کا انتظار کریں گے۔